القاعدہ کے رہنما کی طالبان کے نئے سربراہ سے وفاداری کے اعلان نے کئی سازشی کہانیوں کو جنم دیا ہے جن میں پاکستان کے کردار پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔
القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کا صوتی بیان جس میں انہوں نے ملا محمد اختر منصور کی حمایت کا اعلان کیا، انٹرنیٹ پر جاری ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی حریف گروپ داعش کے حامیوں اور دیگر افراد نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر اس پر تبصرہ شروع کر دیا۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ’بروکنگز‘ کے پراجیکٹ ’امریکہ کے اسلامی دنیا سے تعلقات‘ سے وابستہ جے ایم برگر نے کہا کہ ’’وہ ایسے ہیش ٹیگ پھیلا رہے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ الظواہری نے پاکستانی انٹیلی جنس کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا ہے، جس میں اشارہ ہے کہ طالبان کے موجودہ رہنما پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ملکیت ہیں۔‘‘
برگر نے کہا کہ بہت سی ٹویٹس تمسخر آمیز تھیں جن کا مقصد داعش کے اہم حریف کی القاعدہ کی تحقیر کرنا اور اس کی ساکھ پر ضرب لگانا تھا۔ افغانستان میں داعش اور طالبان دنیا بھر سے جہادیوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں۔
تاہم اس خطے میں جہاں حکومت اور باغی گروپوں کے درمیان تعلق کے بارے میں شفافیت کی کمی ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ الظواہری کی وفاداری کے اعلان میں پاکستان کا ہاتھ ہونے کی سازشی کہانیوں کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
رینڈ کارپوریشن سے تعلق رکھنے والے سینیئر ماہر سیاسیات جوناہ بلینک نے کہا کہ ’’ملا منصور کو اکثر پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی "آئی ایس آئی" کا حمایت یافتہ امیدوار کہا جاتا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ ’’کیا ایسا ممکن ہے کہ ایمن الظواہری کی طرف سے وفاداری کا اعلان اصل میں پاکستان کے کہنے پر کیا گیا ہو؟ کیا پاکستان اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے ملا منصور کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ طالبان مختلف دھڑوں میں بٹ جائیں؟‘‘
انہوں نے کہا کہ ان دعووں کی تصدیق کے لیے کوئی شواہد موجود نہیں۔ مزید برآں القاعدہ اور طالبان کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں۔ القاعدہ نے طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر سے بھی وفاداری کا اعلان کر رکھا تھا۔
امریکی عہدیداروں کا بھی یہ کہنا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے طالبان سے دیرینہ تعلقات کے باوجود پاکستان نے القاعدہ کے خلاف بھرپور کارروائی کی ہے۔
امریکہ نے افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو بھی سراہا ہے۔