اطلاعات کے مطابق، افغان حکومت قطر میں افغان طالبان کا دفتر بند کرانے کی خواہاں ہے، جس سلسلے میں اپنی استدعا میں اُس نے امریکی اور قطری حکام کو دفتر کی ناقص کارکردگی کا حوالہ دیا ہے۔
حکومت افغانستان کی جانب سے دی گئی ایسی درخواست کی سرکاری طور پر کوئی تصدیق نہیں ہو پائی۔ لیکن، اعلیٰ افغان اہل کاروں اور اُن کے ہم منصب امریکی حکام کے درمیان ہونے والے بات چیت سے آگاہ ایک اعلیٰ اہل کار نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ افغان حکومت نے قطر کے دفتر کو بند کرنے کی بات گذشتہ ماہ اقدام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران اُس وقت کہی جب افغان صدر اشرف غنی نیو یارک میں موجود تھے۔
افغان اہل کار نے مزید بتایا کہ قطر کا دفتر ''افغان طالبان کے ساتھ امن عمل کے حوالے سےکوئی قابل ذکر'' پیش رفت حاصل نہیں کر سکا۔
فیض اللہ کاکڑ، قطر میں افغان سفیر ہیں۔ اُنھوں نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ حالانکہ اُن کی حکومت نے اُنھیں سرکاری طور پر طالبان دفتر سے متعلق کسی باضابطہ بات چیت یا فیصلے کے بارے میں نہیں بتایا، عین ممکن ہے کہ افغانستان دوحہ میں قائم دفتر کی افادیت اور مستقبل کا جائزہ لے رہا ہو۔
کاکڑ نے کہا کہ ''طالبان دفتر اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ امن بات چیت یقینی بنائی جا سکے۔ لیکن، دفتر نے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں کوئی خاص کام انجام نہیں دیا۔ (افغان) حکومت امریکی اور قطر کے ساتھ اس معاملے پر بات کر رہی ہے، تاکہ اس بات کا فیصلہ کیا جاسکے آیا اس کے جاری رہنے کی کوئی ضرورت باقی ہے''۔
دریں اثنا، قطر نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ دفتر کے مستقبل کے بارے میں امریکی اور افغان حکومتوں کی جانب سے کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ اُسے قابلِ قبول ہوگا۔
طالبان کا یہ دفتر 2013ء میں قائم ہوا تھا، جس کام میں امریکہ، افغان اور قطری حکومت کی حمایت حاصل تھی، تاکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا کوئی مقام مطعین ہو، تاکہ ملک میں اس تنازع کا خاتمہ لایا جاسکے۔
دفتر اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے، برعکس اس کے، یہ طالبان راہنمائوں کے سفر میں معاون ثابت ہوا ہے۔
میتھیو پی ڈیرنگ، واشنگٹن میں قائم 'نیشنل ڈفنس یونیورسٹی' میں ایک معاون پروفیسر ہیں۔ اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ''دلیل یہ سامنے آئی ہے کہ یہ دفتر تین درجن کے قریب طالبان نمائندوں کو بے تحاشہ تقویت بخشنے کا باعث بنا ہے، اور اُنھیں جواز فراہم کرتا ہے کہ وہ پاکستان، چین، روس اور ایران کے ساتھ خفیہ بات چیت کرسکیں''۔
ڈیرنگ نے مزید کہا کہ ''یہ واضح نہیں کہ دفتر کو کابل منتقل کرنے سے یہ باہمی بات چیت بند ہوجائے گی، اگر غنی یہ چاہتے ہیں کہ طالبان نمائندگان بیرون ملک سفر نہ کر سکیں''۔
واشنگٹن میں اعلیٰ امریکی حکام دفتر کے مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر دفاع جِم میٹس نے منگل کے روز امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ''میرے خیال میں اس بات کا فیصلہ جلد ہوگا''۔ اُنھوں نے مزید بتایا کہ ایک معاملہ یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دفتر میں ایسے لوگ موجود ہوں جو طالبان کے صحیح نمائندے ہوں۔
میٹس نے کہا کہ ''وہ (وزیر خارجہ ریکس ٹلسرسن) اس بات کو یقینی بنانے پر غور کر رہے ہیں کہ ہمارے پاس صحیح لوگ ہوں، اس لیے یہ معاملہ صرف ایک دفتر کا نہیں ہے۔۔یہ ایسا دفتر ہو جس سے ہم گفتگو کرسکیں''۔