پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی ایک اور کوشش 16 اکتوبر سے مسقط میں شروع ہو رہی ہے، جہاں چار فریقی ملاقات ہوگی۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ ’’افغان طالبان پاکستان پر آجکل اتنا ہی بھروسہ کرتے ہیں جتنا امریکہ۔ تاہم، اس کے باوجود، طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے ایک اور کوشش ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مری مذاکرات کے دوران ملا عمر کی موت کی خبر سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو سخت دھچکہ پہنچا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج صورتحال بہت مختلف ہو سکتی تھی۔
انہوں نے روس کا نام لے کر کہا کہ فی الوقت پاکستان سے زیادہ ماسکو اور خطے کے دیگر ممالک کا اثر و رسوخ ہے۔
اُن کے الفاظ میں، ’’جہاں تک افغان طالبان پر ہمارے اثر و رسوخ کا تعلق ہے، ہمارے درمیان بہت بداعتمادی کی فضا ہے۔ غالباً ہم سے خطے کے دیگر ملکوں کا اثر و رسوخ ان پر زیادہ ہے۔ لیکن، ہم پھر بھی اس سلسلے میں 16 اکتوبر سے مسقط میں ایک عمل شروع کر رہے ہیں۔ چار فریقی اتنظامات ایک بار پھر بروئے کار ہوں گے۔ آپریشن کا حصہ ہوں۔ اب بھی بہرحال یہ ایسی چیز ہے کہ جس کے بارے میں ہماری امید ہے کہ یہ کارگر ثابت ہوگی۔ اور ضرورت اس امر کی ہوگی کہ ہم نے تین چار روز قبل کابل اور اسلام آباد کے درمیاں جو دو طرفہ روابط بحال ہوئے ہیں، امریکہ اس عمل میں ہماری مدد کرے‘‘۔
افغانستان کو سرحدوں کی مشترکہ نگرانی کے ساتھ ساتھ اس بات کی باقاعدہ پیشکش کی گئی ہے کہ اگر دہشتگرد گروپوں کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ تو ان کے کمانڈر ہماری فوج کے ایکشن اور ہمارے ہیلی کاپٹروں میں ہمارے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ کارروائی کا حصہ بن سکتے ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستان کے سفارتخانے میں امریکی اور بین الاقوامی میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے، پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جسے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ماضی کے برعکس، گزشتہ تین چار برسوں سے پاکستان عسکریت پسند گروپوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کر رہا ہے، اور اس ضمن میں پاکستان پر دہشتگردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام درست نہیں ہے۔
بقول اُن کے، ’’ہم نے تین دن پہلے ہی جب ہمارے چیف آف سٹاف کابل کے دورے پر تھے، ان کو پیشکش کی ہے کہ وہ بے شک ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ نہ کریں۔ ہم ان کو اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر پر بٹھائیں گے۔ وہ ہمیں بتائیں جہاں جانا ہے۔ ہم جائیں گے۔ اگر وہ ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم ان کا کھوج لگائیں۔ ہم لگائیں گے۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف ہم کوئی ایکشن لیں، تو وہ جو بھی اقدام تجویز کریں گے، ہم وہ اقدام لیں گے‘‘۔
لیکن، اُنھوں نے کہا کہ ’’محض کھوکھلے الزامات قابل قبول نہیں ہیں۔ اگر افغان ایسے ایکشن کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو پھر مشترکہ ہو جانے دیں۔ ہم تو پہلے ہی ان کو یہ پیشکش کر رہے ہیں کہ آئیے اور ہمارے ساتھ ہمارے ہیلی کاپٹروں پر بیٹھیں۔ اور کسی بھی جگہ جاتے ہیں بھلے وہ چمن میں ہے، کوئٹہ میں ہے، پشاور میں یا کسی اور جگہ۔‘‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں برف پگھلی ہے اور امریکہ کی بطور سہولت کار ہمھیں ضرورت ہے‘‘۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’جب وہ اپنے گھر کو درست کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ بلکہ، پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان پر تمام سیاسی اور فوجی قیادت متفق ہے اور ’ہاؤس ان آرڈر‘ لانے کے لیے اس منصوبے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے‘‘۔
امریکہ کے تقریباً تمام بڑے نیوز چینلز اور اخبارات کے نمائندے اس بریفنگ میں موجود تھے، جنہوں نے صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی تقریر کے بعد امریکہ کے مطالبات، باہمی تعلقات میں آگے کی سمت، پاکستان کے خفیہ ادارے کے طالبان سے مبینہ رابطوں، پاکستان چین اقتصادی راہداری اور ملکی سیاست سمیت متعدد امور پر سوالات اٹھائے۔