دنیا بھر سے رہنما دو سب سے بڑے عالمی چیلنجز، شام میں جنگ اور اس سے پیدا ہونے والے پناہ گزینوں کے بحران، سے نمٹنے کے لیے پیر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جمع ہو رہے ہیں۔
براک اوباما بحیثیت امریکی صدر اس اجلاس میں آخری مرتبہ شرکت کر رہے ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا بھی یہ آخری اجلاس ہوگا۔ تقریباً ایک دہائی تک عالمی ادارے کے سربراہ رہنے کے بعد بان کی مون 31 دسمبر کو اس منصب سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔
دنیا بھر میں پناہ گزینوں اور بے گھر افراد کی تعداد میں تاریخی طور پر اضافہ دیکھا گیا ہے اور مرد و خواتین اور بچوں سمیت ساڑھے چھ کروڑ افراد تنازعات، قدرتی آفات اور انتہائی غربت کی بنا پر اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
پیر کو اقوام متحدہ کے سربراہ ان افراد کے بارے میں ایک خصوصی کانفرنس کر رہے ہیں جس کا مقصد اس مسئلے کی بنیادی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ دو سالوں میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے باعث دنیا پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا ہے۔
حال ہی میں بان کی مون نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "میں خلوص کے ساتھ امید کرتا ہوں کہ پیر کو اس کانفرنس سے ہم ان ذمہ داریوں کو بانٹنے سے متعلق ایک لائحہ عمل ترتیب دے سکیں گے۔ کوئی ایک ملک اکیلا اس معاملے سے نہیں نمٹ سکتا۔ لہذا اس مسئلے پر توجہ دینے کے لیے عالمی ذمہ داری کی ضرورت ہے۔"
لیکن اس کانفرنس کے آغاز سے قبل ہی بعض غیر سرکاری تنظیمیں یہ کہہ رہی ہیں کہ یہ موثر ثابت نہیں ہو گی۔
انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل سلیل سیٹھی کہتے ہیں کہ "اقوام متحدہ نے پہلے ایک منصوبہ تجویز کیا تھا لیکن یورپی یونین، روس اور چین نے اپنے قومی مفادات کے تناظر میں پناہ گزینوں کے حقوق کو قربان کیا اور اس عالمی بحران سے نمٹنے کا ایک بڑا موقع کھو دیا۔"
اقوام متحدہ نے ابتدائی طور پر جو منصوبہ تیار کیا تھا اس میں تمام حکومتوں سے کہا گیا تھا کہ وہ ہر سال پناہ گزینوں کے دس فیصد حصے کو اپنے ملکوں میں آباد کریں۔ لیکن ایسا عملاً ہو نہیں سکا۔
منگل کو اوباما کینیڈا، ایتھوپیا، جرمنی، اردن، میکسیکو اور سویڈن کے ہمراہ پناہ گزینوں کے معاملے پر ایک سربراہ کانفرنس کی میزبانی کریں گے۔
دنیا بھر میں بے گھر ہونے والے افراد میں سے تقریباً دو کروڑ پناہ گزین ہیں۔ اس کانفرنس میں پناہ گزینوں کے بارے میں وسائل کو بڑھانے، قانونی طریقے سے ان کی آبادکاری کی تعداد میں اضافہ کرنے اور ان افراد کے لیے تعلیم کی فراہمی کے ذریعے روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر توجہ دی جائے گی۔