بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ اسکیمو برف کا گھر بنا کر رہتے ہیں۔ کرونا وائرس کی اس وبا میں ہمیں بھی خیال آیا کہ شاید ہم بھی برف کے گھر میں رہتے تو کوئی وائرس اس میں داخل نہ ہو پاتا۔
ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس برِّ اعظم انٹارکٹیکا میں داخل نہیں ہو پایا۔ جنوبی نصف کرّے میں واقع اس برِّ اعظم پر زندگی تو موجود ہے مگر وہاں رہتا کوئی نہیں، سوائے چند ہزار سائنسدانوں اور محققین کے جو وہاں مختلف تجربات کر رہے ہیں۔
اور وہ اس وقت خوش بھی ہیں کہ 'جان بچی سو لاکھوں پائے'، کیونکہ دنیا کے باقی حصوں میں تو کرونا وائرس نے تباہی مچا رکھی ہے۔
غالب نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا:
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
شاید کرونا وائرس سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ اگرچہ انٹارکٹیکا میں انسان گھر بنا کر نہیں رہتے مگر وہاں کی سیر ضرور کرتے ہیں۔ 2018 سے 2019 تک 56 ہزار سے زیادہ سیاح وہاں کروز شپس کے ذریعے پہنچے۔ وہاں عام طور پر سیاح نومبر سے مارچ کے دوران آتے ہیں۔
مگر اس مرتبہ کرونا وائرس کی وبا نے سب سے زیادہ کروز کے مسافروں کو نشانہ بنایا۔ چناںچہ انٹارکٹیکا کے لیے کروز کا ہر طرح کا سفر منسوخ کر دیا گیا۔ اور یوں یہ خطہ کووڈ 19کی دست برد سے محفوظ رہا۔
باقی دنیا میں طبی ماہرین اور سائنس دان قیاس کر رہے تھے کہ موسم گرم ہوگا تو شاید کرونا وائرس بھی ختم ہو جائے۔ خود صدر ٹرمپ اس خیال کے بڑے حامی نظر آئے مگر مئی نصف کے قریب گزر گیا اور ایسے کوئی آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ یہ اور بات ہے کہ اب ماہرین ا س خیال کا مزید اظہار نہیں کر رہے۔ اور دنیا کا کاروبار بہرحال کھل رہا ہے۔
انٹارکٹیکا محفوظ ہے تو کیا اس کے درجہ حرارت کا اس میں دخل ہے؟ ماہرِ ماحولیات اور ڈیلاویئر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سلیم علی کہتے ہیں کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وائرس پر درجہ حرارت کا کیا اثر ہوتا ہے، کیونکہ اکثر وائرسز اور ویکسینز نقطہ انجماد سے نیچے درجۂ حرارت میں ریفریجریٹرز میں رکھی جاتی ہیں۔
لیکن انہوں نے کہا کہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمانۂ قدیم کے کچھ وائرس جو ہوسکتا ہے انسانی زندگی سے بھی زیادہ قدیم ہوں وہ قطبین پر خاص طور پر برِّاعظم انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور کرّہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے اگر برف پگھلتی رہی تو وہ وائرس پھر سے زندہ ہو جائیں گے۔
کرونا وائرس ابھی وہاں نہیں پہنچا۔ ڈاکٹر علی کے مطابق چونکہ وہاں موسمِ سرما شروع ہو رہا ہے اور سفر کے لیے یہ موسم سازگار نہیں ہے اس لیے لوگ وہاں تفریح کے لیے بھی نہیں جا پائیں گے اور یوں یہ خطہ محفوظ رہے گا۔
انٹارکٹیکا کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ڈاکٹر سلیم علی نے کہا کہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا خشک ترین علاقہ ہے اور مرطوب ترین بھی، کیونکہ یہاں بارش بہت کم ہوتی ہے اس لیے خشک ہے اور ہر طرف برف بھی پڑی ہے تو نم بھی ہے۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ انٹارکٹیکا میں مختلف ممالک کے ہزاروں سائنس دان جو تحقیق کر رہے ہیں وہ بہت اہم ہے خاص طور پر اوزون کی تہہ کے بارے میں جس میں رخنے کی وجہ سے دنیا میں جلد کے سرطان کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مانٹریال پروٹوکول دنیا کا وہ نظام ہے جس کے تحت 1980 میں کلوروفلورو کاربن نامی کیمیکلز بنانے پر پابندی عائد کی گئی تھی، کیونکہ یہ کیمیکلز انٹارکٹیکا پر اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ اوزون کی یہ تہہ ہمیں الٹرا وائلٹ ریڈی ایشنز سے محفوظ رکھتی ہے جو جلد کے کینسر کا سبب بن سکتی ہیں۔
انسان بخوبی جانتا ہے کہ اسے زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ پھر بھی اس ایک بار ملی زندگی کو محفوظ بنانے کی کوشش نہیں کرتا۔ اپنے معمولات بدلنے کو تیار نہیں ہوتا۔ زندگی کی جدید سہولتوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچتا کہ اس کرّہ ارض کا دامن اس سے چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ وبا اگر پھیلی ہے تو اس میں اس کا عمل دخل کتنا ہے؟ کیا اسے اپنی زمین چھوڑ کر برفستانوں میں رہنا قبول ہو گا۔ جہاں اندھیرا ہے اور جما دینے والی فضا۔
جہاں بقول غالب:
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
پروفیسر ڈاکٹر سلیم علی کا تفصیلی انٹرویو آپ اسی صفحے پر آڈیو میں سن سکتے ہیں۔