کسی نے کب سوچا تھا کہ خوشحال امریکی بھی کبھی خیرات میں کھانا حاصل کریں گے۔ مگر کرونا کی وبا نے ان کی سفید پوشی کا بھرم رہنے نہیں دیا۔
ہجرت انسان کی اپنی تاریخ ہی کی طرح قدیم ہے۔ کبھی مذہب، کبھی حالات اور کبھی معاش انسان کے ایک مقام سے دوسرے مقام تک ہجرت اور نقل مقانی کی وجہ بنے۔
جب وجہ معاش ہو تو دنیا کی ایک بڑی آبادی نے ایسے ملکوں کی جانب ہجرت کی جہاں روزگار کے مواقع آسان اور اجرت بہتر تھی۔ اس لحاظ سے دنیا کے سب ملکوں سے لوگ امریکہ میں آکر آباد ہوئے۔ اس کے بعد یورپ اور پھر باقی دنیا۔
امریکیوں کو بھی اس سے زیادہ فرق نہیں پڑا، کیونکہ ان کی اپنی مالی حالت بہترین تھی اور کارپورٹ سیکٹر کو سستی ورک فورس دستیاب تھی۔
اگرچہ 2008 کی کساد بازاری کے بعد امریکہ میں بھی ملازمتوں میں کمی ہوئی اور تارکینِ وطن ان لوگوں کو بوجھ لگنے لگے جنہیں بے روزگاری کا سامنا ہوا مگر پھر بھی ایک عام امریکی کسی کا محتاج نظر نہیں آیا۔ کساد بازاری ختم ہوئی، حالات بہتر ہوئے اور ملازمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ ابھی اس کا ثمر لوگوں تک پوری طرح پہنچا بھی نہیں تھا کہ کرونا وائرس کی وبا نے سب کچھ الٹ پلٹ کر دیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کاروبار بند، منصوبے معطل، سفر محدود اور نقل و حرکت پر پابندی نے دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کی طرح کئی ملین امریکیوں کو گھروں میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔
امریکہ کی تمام ریاستوں میں کرونا وائرس کے پھیلنے سے لاکھوں امریکی متاثر ہو چکے ہیں اور ہزاروں موت کا شکار ہوگئے ہیں۔ بدھ کی سہ پہر تک امریکہ میں دو لاکھ سے زیادہ مریض سامنے آ چکے تھے اور ساڑھے چار ہزار سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔
اس تمام صورتِ حال نے معمولاتِ زندگی تو درہم برہم کئے ہی ہیں، روزگار بھی ختم کر دئیے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ امریکی جو آج تک مناسب آمدنی کے ساتھ مطمئن زندگی گزار رہے تھے اب اپنے بچوں کیلئے کھانے کا انتظام کرنے سے قاصر ہیں۔
'دی نیو یارک ٹائمز' میں کارا بکلی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بہت سے سفید پوش امریکی زندگی میں پہلی مرتبہ بے روزگاری الاؤنس اور خیراتی رقوم کیلئے درخواست کرنے لگے ہیں۔
وہ لکھتی ہیں کہ امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر ڈیلس میں ایک فوڈ بنک کے باہر کاروں کی لمبی قطار لگی تھی اور اس میں ایسی کار سے لے کر جس کی کھڑکی ٹوٹی ہوئی تھی شیورلیٹ تاہو اور جیگوار جیسی مہنگی اور بڑی بڑی گاڑیاں بھی موجود تھیں۔
اور ان گاڑیوں میں مفت کھانا حاصل کرنے کیلئے ایسے لوگ موجود تھے جن کے بارے میں کوئی ایسا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ان میں ایک تعمیرات کے نقشے بنانے والا، ایک ہائی سکول کا انتظامی افسر، ایک کالج کا طالبِ علم، وئیر ہاؤس میں کام کرنے والے صاحب اور ایک سیون الیون میں کام کرنے والا کلرک شامل تھے۔
کراس روڈز کمیونیٹی سروسز نامی اس فوڈ بنک میں گذشتہ ہفتے آنے والوں میں ستر فیصد وہ لوگ تھے جو وہاں پہلے کبھی نہیں آئے تھے۔ ان میں وئیر ہاؤس میں کام کرنے والے مسٹر لیسی بھی تھے۔ وہ بہت اچھی ملازمت کر رہے تھے اور کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ انہیں یوں لائن میں لگ کر خیراتی کھانا حاصل کرنا پڑے گا مگر کرونا کی وبا نے اور مقامات کی طرح ان کا وئیر ہاؤس بھی بند کروا دیا اور اب دو بچوں کے اس باپ کو مجبوراً کسی نہ کسی طرح ان کی بھوک کا سامان کرنا پڑا۔
نائلہ عالم امریکی ریاست ورجینیا میں ایکسپریس کئیر کے نام سے ایک تنظیم چلاتی ہیں۔ ان کی فلاحی تنظیم کئی برسوں سے کمیونیٹی کے ضرورت مند لوگوں کی مدد کر رہی ہے اور انہیں وہائٹ ہاؤس سے صدارتی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
ہم نے جب اس نئی صورتِ حال کا ذکر نائلہ عالم سے کیا تو انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ مقامی امریکی بھی ان سے مدد کی درخواست کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے اتنے زیادہ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں کہ خود ان کی تنظیم کیلئے سب کی مدد کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔
نائلہ اپنی بہن یاسمین درّانی کے ساتھ مل کر ضرورت مند خاندانوں تک روزمرّہ زندگی کی اشیا پہنچاتی ہیں اور بڑے تواتر سے خاموش امداد کا یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم، اس نئی صورتِ حال نے انہیں بھی فکر مند کر دیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے ہاتھوں بے روزگار لوگوں کے مسائل کا سلسلہ کہاں تک پہنچے گا۔
ارنسٹ ورجیل کی عمر 38 برس ہے۔ وہ 2012 میں ہیٹی سے امریکہ آئے تھے اس عزم کے ساتھ کہ خوب محنت کریں گے اور اچھی زندگی گزاریں گے۔ وہ اور ان کی بیوی فورٹ لاڈرڈیل ائیر پورٹ پر وہیل چئیر چلانے کا کام کرتے رہے۔ تھوڑی تھوڑی بچت کر کے آخرِ کار ایک سال پہلے اپنا گھر خریدنے میں کامیاب ہوئے جہاں وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ کرونا وائرس کی وبا میں وہ بھی ملازمت سے محروم ہو گئے ہیں اور اب نہیں جانتے کہ آئندہ کیا ہو گا۔
تارکینِ وطن کا کیا ذکر، اب تو امریکہ بھر میں ایسے سفید پوش ضرورت مند امریکیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جنہیں زندگی میں پہلی مرتبہ مدد کی ضرورت ہے۔ کرونا وائرس کی وبا نے ان سے ان کا روزگار چھین لیا ہے اور وہ مدد حاصل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
حکومت نے دو کھرب کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے اور ایک خاص آمدنی والے لوگوں کو مخصوص رقم کے چیک ان کے گھر بھجوائے جائیں گے مگر اس میں ابھی تین ہفتے لگیں گے۔ اور اس سے پہلے کھانا تو ہر روز چاہیئے۔ مکان کا کرایہ بھی ادا کرنا ہے۔
سوچوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کو خوشحالی کے مواقع فراہم کرنے والے اس ملک کے ان لوگوں کو پریشان کر رہا ہے جو اپنی دنیا میں خوش تھے اور ان کی قوتِ خرید ان کے ملک کو دنیا کی عظیم طاقت بنائے ہوئے تھی۔