کرونا وائرس کے بحران کے نتیجے میں پوری دنیا کے سرکاری اور نجی ادارے اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں اور بہت سے ادارے اپنے ملازمین کو ان کے گھروں میں ہی ٹیلی ورکنگ کی آن لائن ٹریننگ دے کر ان سے کام کروا رہے ہیں۔ اور یوں، دنیا بھر کے لاکھوں ملازمین کو گھر سے دفتر کا کام کرنے کا ایک منفرد تجربہ ہو رہا ہے۔
بہت سے مقامات پر ایک ہی گھر کے مختلف حصوں میں گھر کے افراد نے اپنے اپنے کمپیوٹرز یا لیپ ٹاپس کے ساتھ اپنے دفتر کھول رکھے ہیں۔
کرونا بحران نے ٹیلی ورکنگ کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کر دیا ہے اور اس مشکل صورت حال میں یہ اداروں کے کام کا پہیہ چلنے کا ایک موثر ذریعہ بن کر سامنے آیا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں ٹیلی ورکنگ کا سلسلہ بہت سے اداروں میں بہت عرصے سے جاری ہے۔ لیکن، کیا اس بحران کے بعد اس سلسلے میں اضافہ کیا جائے گا؟ اور کیا دنیا کے دوسرے ملکوں میں جہاں ٹیلی ورکنگ کو ابھی تک متعارف نہیں کرایا گیا، کرونا بحران کے بعد اس سسٹم کو متعارف کرایا جائے گا یا کرایا جا سکتا ہے؟ وائس آف امریکہ نے اس بارے میں پاکستان اور دنیا بھر سے ملازمین اور ماہرین سے انٹرویوز کیے ہیں۔
ٹورانٹو کینڈا میں انرجی کی ایک امریکی کمپنی کے پروگرام مینجر اور ریئل اسٹیٹ کے ایک کامیاب بزنس مین طاہر رمزی نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ کرونا بحران نے اگرچہ لوگوں کے لیے بہت سے مسائل پیدا کیے، لیکن اس سے ایک مثبت پہلو اس سوچ کی صورت میں سامنے آیا کہ کام کےلیے دفتر جانا ضروری نہیں ہوتا۔ گھر بیٹھ کر بھی دفتر کا کام اسی کامیابی سے کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ وہاں جا کر کیا جاتا ہے۔ اور اس سے ملازمین کے ساتھ ساتھ آجروں کو بھی بہت سے مالی اور انتظامی فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے یہ سوچ اور یہ سسٹم بہت سے دفاتر میں موجود تھا۔ لیکن، اب اس بحران کےدوران ایک پریکٹیکل مثال کے طور پر سامنے آیا ہے اور اب یقینی طور پر ادارے اس سسٹم کو کسی نہ کسی معقول انداز میں اپنانے کی کوشش ضرور کریں گے۔
سعودی عرب میں ایک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے مالک اور ایک انجینیر شیخ اسرار نے وائس آف امریکہ کو ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں بتایا کہ سعودی عرب میں اس وقت تقریباً تمام سرکاری اور نجی اداروں میں لوگ گھر سے کام کر رہے ہیں اور بہت موثر طریقے سے کام کر رہے ہیں اور یہ ایسا تجربہ ہے جس کے دوررس نتائج نکل سکتے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ میں بھی آہستہ آہستہ یہ صورتحال بڑھے گی اور حکومتیں اور ادارے ٹیلی ورکنگ کو اپنے روٹین میں کسی نہ کسی انداز میں شامل کرنے پر سوچنا شروع کر دیں گے۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ انہیں اس کےلیے ٹکنالوجی کو اپڈیٹ کرنا ہوگا اور ملازمین کو براڈ بینڈ کنکشنز دینے پڑیں گے۔ اور یورپ اور امریکہ جیسے ملکوں کی طرح تو نہیں لیکن کافی حد تک گھر سے کام کرنےکا سلسلہ یہاں بھی شروع ہونے کا امکان دکھائی دیتا ہے۔
لاہور پاکستان کی ورچوئل یونیورسٹی کے قائم مقام ریکٹر اور ڈائریکٹر فائنانس، نعیم طارق نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کی یونیورسٹی میں طالبعلموں کو پہلے ہی آن لائن تعلیم دی جاتی ہے اور سارے اسٹاف اور عملے کا گھر سے کام کرنے کا اکاؤنٹ موجود ہے اور کرونا وائرس کے شروع ہوتے ہی ان کا عملہ گھر سے ہی کام کر رہا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ اس بحران کے بعد ادارے اور دفاتر چاہیں تو ٹیلی ورکنگ کو فوری طور پر تو نہیں لیکن مرحلہ وار طریقے سے اپنے ملازمین کے لیے یہ سہولت فراہم کر سکتے ہیں اور جیسا کہ دنیا سکڑ رہی ہے اور ٹکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اس طریقہ کار کو اپنانا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔
اسلام آباد پاکستان کے ایس اینڈ پی گلوبل میں ایک بزنس اینلسٹ، شہباز ملک نے جو کافی عرصے سے ٹیلی ورک کر رہے ہیں اور ان کا ادارہ انہیں یہ سہولت فراہم کر رہا ہے، کہا کہ کرونا بحران کے دوران ٹیلی ورکنگ کی افادیت سامنے آنے کے بعد اداروں کو چاہئے کہ وہ بحران کے خاتمے کے بعد بھی ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی سہولت دینے یا اس میں اضافہ کرنے پر غور کریں۔ لیکن، ان کا کہنا تھا کہ اس کےلیے ضروری ہے کہ پہلے ٹیلی ورکنگ کا کلچر تیار کیا جائے اور ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی سہولیات فراہم کی جائیں اور انہیں ٹیلی ورکنگ کے ضابطوں کے بارے میں آگاہی دی جائے، تاکہ وہ اس سہولت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔
کراچی میں ورچوئل ایجو کیشن اور ورچوئل ٹریننگ کی پاکستان اور سعودی عرب کی ایک جوائنٹ وینچر کمپنی کے فاؤنڈر اور سی ای او، عبد اللہ بٹ نے وائس آف امریکہ کو ایک آڈیو انٹرویو میں بتایا کہ کرونا وائرس کے اس بحران میں گھر سے دفتر کا کام کرنے کےتجربے کے بعد پرائیویٹ اور سرکاری ادارے یقینی طور پر یہ احساس کریں گے کہ وہ اپنے ملازمین کو کم از کم دو دن گھر میں رہ کر دفتر کا کام کرنے کی سہولت فراہم کریں؛ کیوں کہ اس وقت ٹکنالوجی، سوشل میڈیا اور ریموٹ لرننگ کے اتنےسوفٹ وئیرز موجود ہیں جن کی مدد سے اس سسٹم کو باآسانی نافذ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ کرونا کی وبا کی وجہ سے اس سوچ اور اس پر عمل درآمد میں تیزی آئے گی۔
انھوں نے کہا کہ اس سے نہ صرف ملازمین کو گھر کے پرسکون ماحول میں رہ کر کام کرنے میں خوشی محسوس ہوگی جس کے نتیجے میں ان کی کارگردگی بہتر ہوگی اور اداروں کے ان اخراجات میں کمی ہوگی جو ان ملازمین کو دفتر میں کام کرنے سےانہیں اٹھانے پڑتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس کی پریشان کن صورتحال سے عام لوگوں کے لیے اگر کوئی روشن پہلو نکل سکتا ہے تو وہ ان کے لیے مستقبل میں گھر سے کام کرنے کی سہولتوں کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔
اور جرمنی، لکشمبرگ میں ایک اکاؤنٹنگ فرم سے وابستہ، مسز اسامہ کا کہنا تھا کہ یقینی طور پر کرونا وائرس نے جہاں لوگوں کو بہت سے مسائل سے دوچار کیا وہاں یہ خوشگوار صورتحال بھی پیدا ہوئی کہ وہ ورکنگ جوڑوں کو ایک ساتھ رہنے اور وقت گزارنے کے مواقع میں بھی اضافہ ہوا اور اگرچہ انہوں نے گھر کے الگ الگ حصوں میں اپنے دفتر بنائے، لیکن کم از کم بریک میں ایک ہی وقت میں ایک ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے کا موقع تو ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ کرونا بحران کے بعد یہ سوچ تقویت پکڑے گی اور گھر گھر دفتر کھل جائیں گے۔