پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ملک میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نئے قواعد کی منظوری دی ہے۔ ان قواعد کو 'شہریوں کو آن لائن نقصان سے بچاؤ کے قواعد' کا نام دیتے ہوئے 2016 میں منظور کردہ پاکستان الیکٹرونک کرائم ایکٹ' میں ضم کر دیا گیا ہے۔
نئے قواعد کے مطابق، سوشل میڈیا کمپنی کا مطلب کوئی بھی ایسا مواصلاتی چینل ہے جس میں کمیونٹی اِن پٹ، بات چیت اور مواد کو شیئر کرنے کا نظام ہو۔
نوٹی فکیشن کے آرٹیکل 3 کے مطابق، وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن قواعد جاری ہونے کے 15 روز کے اندر نیشنل کوآرڈینیٹر تعینات کریں گے، جن کی نشاندہی پر سوشل میڈیا کمپنیاں ہنگامی صورتِ حال میں چھ گھنٹوں کے اندر قابل اعتراض مواد حذف کرنے کی پابند ہوں گی۔
سوشل میڈیا کمپنیاں نیشنل کوآرڈینیٹر کی ہدایات پر عمل درآمد کی پابند ہوں گی۔
سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کی ثقافتی، نسلی، مذہبی اور قومی سلامتی کے خلاف مواد نشر نہ کرنے کو یقینی بنائیں گی۔ ان کمپنیوں کو مستقل پتے کے ساتھ اپنا دفتر بھی قائم کرنا ہو گا۔
ان قوانین کے اطلاق کے 12 مہینے کے اندر سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں صارفین کی معلومات اور کوائف کے لیے اپنے سرورز بنائیں گی۔
سوشل میڈیا کمپنیاں ایسے پاکستانی شہریوں کا مواد حذف یا اکاؤنٹ معطل کردیں گی جو چاہے بیرون ملک ہی مقیم کیوں نہ ہوں، جس کے ذریعے فیک نیوز پھیلائی گئی ہو یا کسی کی ہتک عزت کی گئی ہو۔
ایکٹ کی شق 29 کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں تفتیشی اتھارٹی کو ہر قسم کی معلومات فراہم کرنے کی پابند ہوں گی۔
سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے قوانین کی پاسداری نہ کیے جانے پر نیشنل کوآرڈینیٹر کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ مذکورہ سوشل میڈیا کمپنی کو پاکستان میں مکمل طور پر بند کر دے۔
کیا ان قواعد پر عمل درآمد ممکن ہے؟
فیس بک، گوگل اور ٹوئٹر کے سابق کنسلٹنٹ بدر خوشنود کا کہنا ہے کہ حکومت جو معلومات سوشل میڈیا کمپنیوں سے حاصل کرنا چاہتی ہے وہ ان کمپنیوں کے مقامی قوانین (جہاں وہ رجسٹرڈ ہیں) کے مطابق بھی طلب کی جا سکتی ہیں۔ لیکن، جو طریقہ کار حکومت نے اس مقصد کے لیے اپنایا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بدر خوشنود کا مزید کہنا ہے کہ ایسے قوانین سے بین الاقوامی سطح پر ملکوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ اُن کے بقول، "جن کمپنیوں نے سرمایہ کاری کرنی بھی ہوتی ہے، وہ ایسے قوانین کی وجہ سے محتاط ہو جاتی ہیں۔
بدر کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل پاکستان اور نئی سرمایہ کاری لانے اور نوجوانوں کے لیے مواقع پیدا کرنے سے متعلق منصوبوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
بدر کے بقول، پاکستان کی حکومت نے اس سے قبل بھی یوٹیوب کو تین سال کے لیے بند کیا تھا۔ لیکن، اُس وقت بھی دیکھا گیا تھا کہ لوگ 'پراکسیز' اور 'وائس پروٹوکول نیٹ ورک' (وی پی این) کے ذریعے یوٹیوب استعمال کرتے رہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس ضمن میں کیا پالیسی اپناتی ہے۔
ڈیجیٹل معیشت پر اثرات
بدر خوشنود پاکستان سوفٹ ویئرز ایسوسی ایشن کے شعبہ ای کامرس کے سربراہ بھی ہیں۔ اُن کا کا کہنا ہے کہ اس وقت اگر برآمدات بڑھ رہی ہیں تو وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق برآمدات کی مرہون منت ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران آئی ٹی سے متعلق مصنوعات کی برآمدات میں 20 سے 25 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
بدر کا مزید کہنا ہے کہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی برآمدات میں کروڑوں ڈالرز کا حصہ فری لانسنگ کا ہے، جو کہ ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اپنے کاروبار کو وسیع کر رہے ہیں۔ ان کے بقول، یہی وہ لوگ ہیں جو ترقی کرتے ہیں اور پھر بڑی بڑی کمپنیاں بناتے ہیں۔ تو ان قوانین سے یہ تمام چیزیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
بدر کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں سات کروڑ سے زائد لوگ انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ اور اگر سوشل میڈیا کمپنیاں بند ہو جاتی ہیں تو جو پاکستانی کاروباری طبقے اس کے ذریعے سستی مارکیٹنگ کر رہے ہیں، اُن کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔
بدر خوشنود کے بقول، فیک نیوز کا مسئلہ پوری دُنیا میں ہے۔ انسانی وسائل سے اسے کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "اگر لائبریری میں غلط کتاب آ جائے تو پوری لائبریری بند کرنے کی بجائے اس مسئلے کا کوئی اور حل تلاش کرنا چاہیے۔"
ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم تنظیم 'ڈیجٹیل رائٹس فاؤنڈیشن' سے منسلک نگہت داد کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان قوانین کے ذریعے جو توقعات سوشل میڈیا کمپنیوں سے وابستہ ہیں، وہ ناممکن سی بات ہے۔ ان کے بقول، ان قوانین میں حکومت نے سوشل میڈیا کمپنیوں سے متعلق بہت وسیع اختیارات اپنے پاس رکھے ہیں۔
نگہت داد کا مزید کہنا تھا کہ "جب آپ ایسے مبہم قوانین بناتے ہیں تو ان کا غلط استعمال ہوتا ہے اور ان قوانین کے ذریعے انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اور کہا جا رہا ہے کہ اگر آپ حکومت کی بات نہیں مانیں گے تو حکومت آپ کو بند کر دے گی۔"
ان کے بقول، انہیں نہیں لگتا کہ سوشل میڈیا کمپنیاں اس طرح سے اپنے دفاتر پاکستان میں بنائیں گی۔ نگہت کے بقول، سوشل میڈیا کمپنیاں بین الاقوامی قواعد و ضوابط کی پابند ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اقوامِ متحدہ سمیت مختلف انسانی حقوق کے اداروں کے سامنے بھی جوابدہ ہوتی ہیں۔
نگہت داد کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل جیسے بڑے ادارے اپنا ڈیٹا پاکستان جیسے ملک میں رکھیں گے جہاں انہیں یہ خدشہ رہے گا کہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں، صحافیوں اور کمزور طبقات کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
نگہت داد کا کہنا ہے کہ ان قوانین کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔