کرونا وائرس کی وبا نے جہاں عبادات سمیت زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے۔ وہاں ہر چند کہ ابھی حج میں کئی ماہ باقی ہیں، لیکن اس بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں کہ آیا اس سال حج بھی اپنے روایتی انداز میں ہو سکے گا یا نہیں، جو طلوع اسلام کے بعد سے مسلسل جاری ہے اور اس میں کبھی خلل نہیں پڑا۔ اور اگر ہو گا تو کس طرح۔
خیال رہے کہ خود سعودی عرب بھی اس وبا کی زد میں ہے اور وہاں اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے سخت اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
ممتاز صحافی اور دانشور ڈاکٹر خالد المعینہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کے علاوہ ملک میں شام سات بجے سے صبح چھ بجے تک کرفیو رہتا ہے۔ جب کہ ریاض، مکہ۔ مدینہ اور جدہ وغیرہ میں تین بجے سہ پہر سے کرفیو لگ جاتا ہے۔ اور مکے اور مدینے کے نواحی علاقوں میں دو ہفتے کا 24 گھنٹے کرفیو لگایا گیا ہے اور حکومت ضرورت مندوں کے لئے ضروریات زندگی کی فراہمی کا بندو بست کر رہی ہے۔
سعودی عرب نے پاکستان کو، جہاں سے بہت بڑی تعداد میں حاجی آتے ہیں، مطلع کیا ہے کہ وہ ابھی حاجیوں کے لئے سعودی عرب میں قیام کے لئے کوئی بکنگ وغیرہ نہ کرائے اور اس کے لیے سہولیتں فراہم کرنے والوں کو کوئی رقم نہ دیں۔ واضح رہے کہ اس کام کے لئے مہینوں پہلے سے مکانات، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ وغیرہ فراہم کرنے والوں اور دوسری خدمات فراہم کرنے والوں کو پیشگی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ جس کے بارے میں سعودی حکومت نے نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
تاہم پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حج کے لئے معاہدہ ہر سال کی طرح کئی ماہ قبل یعنی اس وبا سے قبل ہو چکا ہے۔ لیکن نئی صورت حال یعنی کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد سعودی عرب کی جانب سے یہ مشورہ دیا گیا ہے۔
خالد المعینہ نے مزید بتایا کہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ حج کے لئے کوئی فارمولا وضع کیا جا سکے جس کے تحت حج ہو سکے۔
ادھر پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز سے جب اس بارے میں گفتگو کی گئی تو انہوں نے قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ حج اس وقت واجب ہے جب یہ ممکن ہو۔ حالات درست ہوں، راست کھلے ہوں اور استطاعت ہو۔ لیکن موجودہ حالات میں لگتا ہے کہ شاید یہ شرائط پوری نہ ہو سکیں۔
انہوں کہا کہ ایسی صورت میں اسے روکنے کی بجائے ہو سکتا ہے کہ محدود تعداد میں مقامی لوگوں کو ٹیسٹ وغیرہ کرنے کے بعد حج کی اجازت دے دی جائے۔ تاکہ اس انتہائی اہم مذہبی رکن کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رہے۔
پاکستان کے ایک اور ممتاز مذہبی اسکالر اور وفاق المدارس کے مولانا حنیف جالندھری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال تو وقت کا انتظار کرنا چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ سعودی حکومت شرائط کے ساتھ حج کی اجازت دے دے، یعنی جو لوگ آئیں ان کا پہلے اپنے ملکوں میں اور پھر سعودی عرب پہنچ کر کرونا کا ٹیسٹ کرایا جائے اور اگر کلیر ہوں تو انہیں حج کرنے دیا جائے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حالات بہتر ہو جائیں۔
دریں اثنا پاکستان میں مساجد میں جماعت کے اجتماع کے حوالے سے بعض علما کے تحفظات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا حنیف جالندھری نے کہا کہ اس بارے میں حکومت اور بیشتر علما کے درمیان اتفاق ہے کہ نماز جماعت سے تو ہو گی لیکن مسجد میں محدود تعداد میں ہی لوگ آ سکیں گے۔
اسی حوالے سے قبلہ ایاز نے بتایا کہ آج جو چند علما اس سے اختلاف کر رہے ہیں۔ ان کے بھی اس بارے میں معاہدے پر دستخط موجود ہیں، جو نماز جماعت کے بارے میں ہوا ہے۔
بعض حلقوں کی جانب سے کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ میں تبلیغی جماعتوں کے کردار کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے قبلہ ایاز نے کہا کہ تبلیغی جماعتوں نے یہ مان لیا ہے کہ ان حالات میں تبلیغی اجتماعات نہیں ہونے چاہئیں اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں روک دی ہیں۔ تبلیغی جماعتوں کے جو لوگ اپنی سرگرمیاں روکنے کے بعد جن مسجدوں میں محدود ہو گئے ہیں انہیں وہاں سے نکالنے کے لئے مقامی انتظامیہ اقدامات کر رہی ہے۔
مولانا حنیف جالندھری نے بھی ان سے اتفاق کیا کہ ابتداً میں لوگوں کو صورت حال کی سنگینی کا احساس نہیں تھا لیکن اب علما، تبلیغی جماعتوں کے لوگ اور متعلقہ عہدیدار سب ایک پیج پر ہیں۔