کرونا وائرس کی وبا سے محفوظ رہنے کیلئے جہاں گھر میں رہنا بہتر ہے، وہیں ہاتھوں کو بار بار اچھی طرح دھونا بھی ضروری ہے۔ مگر پانی ہی نہ ہو تو ہاتھ کیسے دھوئے جائیں۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی بعض لوگ پانی سے محروم ہیں۔
''اوہ بجلی پھر چلی گئی۔ پانی آیا یا نہیں۔ اوہو۔ پھر بھر کے لانا پڑے گا''۔ یہ جملے آپ نے عام سنے ہوں گے۔ مگر ہمارے جیسے ملکوں میں۔ امریکہ میں نہیں۔ لیکن، یقین کیجئے ہم جو کہانی بیان کرنے جا رہے ہیں یہ امریکہ کی ہی ہے۔
ایک بڑی ریاست مشی گن کے بڑے شہر ڈیٹرائٹ کی، جہاں کاریں بنتی ہیں۔ مگر وہاں بہت سے لوگ پانی سے محروم ہیں، کیونکہ وہ پانی کا اپنا بل نہیں چکا سکے۔ یقین نہ آئے تو امریکی نیٹ ورک این بی سی کی ایرن آئن ہارن کی رپورٹ دیکھ لیجئے۔
وہ کہتی ہیں یہ تو واضح نہیں ہے کہ امریکہ میں کتنے لوگ گھروں میں پانی سے محروم ہیں، مگر 2016 میں ایک سروے کیا گیا تھا جس سے ظاہر ہوا تھا کہ اس برس امریکہ کے بڑے شہروں میں پانچ فیصد لوگ ایسے تھے جن کے گھروں میں پانی کی سپلائی روک دی گئی تھی اور اگر ملکی سطح پر دیکھا جائے تو یہ تعداد ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو ظاہر کرتی ہے۔
تاہم، پبلک واٹر کے عہدیدار کہتے ہیں کہ بعض گھروں میں ایسا صرف چند روز کیلئے ہوا۔ مگر کاریں بنانے والے شہر ڈیٹرائٹ میں 2010 کی مردم شماری کے مطابق ہر 3 میں سے ایک شہری مسائل میں زندگی گزارتا ہے اور مالی مشکلات کے باعث اگر گھروں کے پائپ ٹھیک نہیں کروا سکے تو پانی سے محروم ہیں جیسا کہ ویلریا گرفن کے ساتھ ہوا۔
پچھلے سال موسمِ خزاں میں بل نہ دینے اور پائپ خراب ہونے کی وجہ سے ڈیٹرائٹ شہر نے ان کے گھر میں پانی کی سپلائی روک دی تھی۔ سردی کا موسم آیا اور وہ گرم پانی سے بھی محروم رہے۔ اب تک ان کا گزارہ لوگوں کی طرف سے عطیے میں دئیے گئے پانی سے ہو رہا ہے۔
مگر اب کیا ہو گا۔ کرونا وائرس کی وبا میں بار بار ہاتھ دھونے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ ملک میں لاکھوں ایسے لوگوں کی طرح جن کے پانی کی سپلائی اس سال روک دی گئی، ویلریا کے پاس بھی پانی نہیں ہے تو وہ کیا کریں گی۔
ایسا ہمیشہ نہیں تھا۔ وہ ایک کمپنی میں بہت اچھی جاب کر رہی تھیں مگر 31 سال بعد کمپنی نے کچھ اور لوگوں کے ساتھ انہیں بھی بر طرف کر دیا۔ پھرخاندان کے کچھ لوگ یکے بعد دیگرے ان سے الگ ہو گئے اور وہ مشکلات میں گھر گئیں۔ 25 سال سے وہ جس گھر میں رہ رہی ہیں، اس کے بل ادا کرنے میں انہیں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی۔ مگر وہ پانی کا بل ادا نہیں کر پائیں اور ایک والو کی خرابی نے مشکل اور بڑھا دی۔ چار سو ڈالر کا خرچہ ان کی پہنچ سے دور تھا۔
مگر اب کرونا وائرس سے پریشان حال لوگوں کیلئے مشی گن کے گورنر نے 9 مارچ سے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اب لوگوں کو 25 ڈالر سے زیادہ پانی کا بل نہیں آئے کا اور پہلے کے بل بھی مؤخر کر دئیے جائیں گے۔
ویلریا کے گھر میں پانی کے پائپ کی مرمت رضاکارانہ طور پر کی جا رہی ہے۔ اگرچہ حکام نے خاص حالات میں لوگوں کے پانی کے کنکشن بحال کرنے کیلئے کہا ہے مگر ویلریا کو پانی 2 اپریل سے پہلے نہیں مل سکتا۔
مونیکا لوئیس پیٹرک ایک فلاحی تنظیم کی صدر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکہ جیسے ملک میں آپ تصور نہیں کر سکتے کہ ایسی کسی خاتون سے ملیں جو اپنے بچوں کو نہلا نہ سکتی ہو مگر وہ ایسی ماں کو بھی جانتی ہیں جو ایک مرتبہ ٹب میں پانی بھر کر اپنے تین بچوں کو اسی پانی سے نہلاتی ہیں۔
دنیا کے اور ملکوں کی طرح یہاں امریکہ میں بھی حکام کہتے ہیں کہ پانی کی کمی ہوتی جا رہی ہے اور کمپنیوں نے لاگت بھی بڑھا دی ہے۔ چنانچہ، لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ امریکن پبلک میڈیا کے ایک تجزیئے کے مطابق، صرف ڈیٹرائٹ میں ہر شہری اوسطاً گیارہ سو ڈالر سالانہ پانی کا بل ادا کرتا ہے، جب کہ ایک عشرے پہلے ایسا نہیں تھا۔
ڈیٹرائٹ 2014 میں بھی اس وقت خبروں میں آیا تھا جب مشی گن کے ایک مینیجر نے قرضوں کے باعث ملک میں سب سے بڑے پیمانے پر دیوالیہ پن کا اعلان کیا اور ڈیٹرائٹ کے تقریباً دو لاکھ لوگوں کا پانی بند کر دیا۔ اس اقدام پر اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے عہدیداروں نے بھی سرزنش کی تھی اور امریکہ میں تو ہر گھر میں ٹھنڈے اور گرم پانی کی فراہمی شہریوں کا حق ہے۔
پانی زندگی کی علامت ہے۔ پانی صفائی کیلئے ضروری ہے۔ پانی صحت کیلئے ضروری ہے۔ اور پھر جب صحت پر بن آئے اور پانی نہ ہو تو کیا کیجئے گا۔ کرونا وائرس کی اس وبا کے دنوں میں اس کا تصور بھی محال ہے۔