کرونا وائرس کی وبا کے دوران دل کے امراض سے موت کا شکار ہونے والوں کی تعداد طبی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر رہی ہے۔
کروناوائرس سے دنیا میں لاکھوں افراد موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایک کروڑ سولہ لاکھ سے زیادہ کرونا کے کیسز سامنے آ چکے ہیں صرف امریکہ میں یہ تعداد ساڑھے انتیس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے، جبکہ امریکہ میں اس سے اموات کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
اگرچہ طبی ماہرین اب بھی اسے کرونا وائرس کی پہلی ہی لہر قرار دے رہے ہیں جس میں امریکہ میں متعدی امراض کے چوٹی کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کے بقول امریکی گھٹنوں تک دھنس چکے ہیں۔ مگر، ساتھ ہی دیگر امراض کی شدت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں دل کے امراض بھی ہیں جن کے بارے میں کرونا کی وبا سے پہلے کہا جا رہا تھا کہ دنیا میں لوگوں کی موت کا سب سے بڑا سبب ہے۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک تازہ ترین جائزے کے مطابق کووڈ 19 کے ان دنوں میں ایک اندازے کے مطابق سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاستوں اور نیویارک شہر میں ماہ مارچ، اپریل اور مئی میں دل کی بیماری سے اوسطً ہونے والی اموات میں ستائیس فیصد اضافہ ہوا اور آٹھ ہزارتین سو افراد موت کا شکار ہو گئے۔
کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافے سے امریکی ریاست ایلی نوئے، میسا چوسیٹس، مشی گن، نیو جرسی، نیویارک اور نیویارک شہر میں اس دوران پچھتر ہزار اموات ہوئیں جو ان دنوں میں کووڈنائنٹین سے مرنے والوں سے سترہ ہزار زیادہ ہے۔
ڈاکٹر آصف رحمان ماؤنٹ سینائی نیویارک میں انٹرونشنل کارڈیالوجی کے ایسوسی ایٹ ڈائیریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دل کے عارضے میں مبتلا لوگوں کو کووڈ نائنٹین سے خطرہ زیادہ رہا ہے اور اب بھی ہے۔ وہ ہائی رسک کہلاتے ہیں۔ چنانچہ ابتداء میں ایسے لوگ خوف کے مارے بالکل کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جا رہے تھے اور یا تو وہ گھر پر موت کا شکار ہو رہے تھے یا اس کو جھیلنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔
لیکن اب وہ آن لائن، فیس ٹائم یا ٹیلی میڈیسن کے ذریعے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ بھی کرتے ہیں اور کلینک پر یا اگر ضرورت محسوس ہو تو ہسپتال بھی جا رہے ہیں اور وہاں پوری احتیاطی تدابیر کے ساتھ ان کا معائنہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب ضروری سرجری بھی کی جارہی ہے اور نیو یارک میں خاص طور پر اب چونکہ کرونا کے مریضوں کی تعداد کم ہے اس لئے لوگوں کا خوف بھی کم ہوا ہے۔
ڈاکٹر اظہر مسعود فاروقی کراچی میں امریکن کالج آف کارڈیالوجی پاکستان چیپٹر کے گورنر ہیں اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزز کے ایگزیکٹو ڈئریکٹر رہے ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران دیگر امراض میں مبتلا لوگ ہسپتال یا کلینک آنے سے گریز کرتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کرونا کی وبا کے دوران دل کے امراض ختم ہوگئے ہوں مگر پاکستان میں ایسے مریضوں کے اسپتالوں سے رجوع کرنے میں کمی آئی تھی۔ یہ کمی کم از کم پچاس فیصد تک تھی۔ اس لئے اکثر ہسپتالوں نے او پی ڈیز بند کردیں اور ڈاکٹروں نے آؤٹ ڈور کلینک بند کر دیئے تھے۔ وہ کہتے ہیں اگرچہ ان کے پاس کوئی اعداد و شمار تو نہیں ہیں مگر یہ ضرور ہے کہ دل کے عارضے میں مبتلا لوگوں میں کووڈ نائنٹین کا خوف بہت زیادہ رہا ہے اور اگر انہوں نے انتہائی ضرورت کے وقت بھی اپنے ڈاکٹر سے رجوع نہیں کیا تو اموات کا خدشہ بھی موجود ہے۔
ڈاکٹر آصف رحمان کہتے ہیں کہ ایسا بھی ہوا کہ اگرچہ لوگوں کو اس سے پہلے دل کا کوئی عارضہ نہیں تھا مگر کرونا وائرس کے ساتھ ہسپتال آئے تو ان میں دل کی بیماری کے آثار بھی پائے گئے۔ کچھ لوگوں کو ہارٹ اٹیک ہوا کیونکہ ان کی شریان میں رکاوٹ تھی، کچھ کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوا مگر ان کے دل میں سوزش ہو گئی اور ان کا ہارٹ کمزور ہو گیا۔ کچھ لوگوں کے جسم میں کلاٹ بننے لگے۔ یہ کلاٹ ٹانگوں میں اور جسم کے دیگر حصوں میں پھیلے۔ سٹروک بھی ہوا اور پھیپھڑوں میں کلاٹ آنے سے لوگوں کی یکدم اموات بھی واقع ہوئیں۔
چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اب جو مریض کرونا کی انفیکشن کے ساتھ ہسپتال آتے ہیں تو انہیں اینٹی بائیاٹک دوائیں بھی شروع کردی جاتی ہیں اور خون پتلا کرنے کی دوائیں بھی اور ان کے دل کا سونوگرام بھی کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر اظہر فاروقی کہتے ہیں کہ ان کے شہر کراچی میں روزانہ بہت سے ایسے مریض لائے جاتے ہیں جو یا تو ہسپتال پہنچ کر دم توڑ دیتے ہیں یا راستے میں ہی ان کی موت واقع ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ معلوم کرنے کیلئے آیا موت کا سبب کرونا وائرس تھا یا کوئی اور عارضہ، مریض کا موت کے بعد بھی کرونا کا ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے مگر کرونا وائرس موت کے بعد صرف ایک یا دو گھنٹے تک مریض کے جسم میں رہتا ہے اس لئے یہ ٹیسٹ فوری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ جلد ختم ہونے والا نہیں ہے اس لئے اگر کسی کو کووڈ نائنٹین کے علاوہ بھی کوئی تکلیف ہے تو ہسپتال ضرور آنا چاہئے اور اگرچہ ہسپتال آنے سے کرونا انفیکشن ہونے کا خوف بجا ہے مگر سوشل ڈسٹینسنگ اور ماسک کے استعمال کے ساتھ پوری احتیاط کے ساتھ محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
امریکہ میں کووڈ نائنٹین سے اموات کے علاوہ مرنے والوں کی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ اس وبا کے زور کے دنوں میں دیگر بیماریوں کے مریض یا تو خود ہسپتال نہیں پہنچے یا کووڈ نائنٹین نے انہیں سنبھلنے نہیں دیا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق نیو یارک میں مین ہیٹن کے ماؤنٹ سینائی ہسپتال کے کارڈیو ویسکولر سرجن جان پسکس کہتے ہیں کہ اس وقت جو جائزہ پیش کیا جا رہا ہے اس کے مطابق صرف نیو یارک شہر میں ہر روز پچاس ایسے مریض موت کا شکار ہوئے جنہیں کرونا وائرس کا انفیکشن نہیں تھا۔ اور یہ بہت بڑی تعداد ہے۔
بہت سے دیگر ماہرین کہتے ہیں کہ اس وبا کے دوران دیگر بیماریوں سے موت کا شکار ہونے والوں کی اس تعداد میں بھی اس وبا ہی کا ہاتھ ہے کیونکہ اسی کی وجہ سے یا تو ان مریضوں میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں اور یا وہ بےتوجہی کا شکار ہوئے۔
ایسے میں جب امریکہ کی بتیس ریاستوں میں اب بھی کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ تشویش کا باعث بنا ہوا ہے، طبی ماہرین اسی پر زور دے رہے ہیں کہ ماسک پہنیں، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں کیونکہ ابھی نہ تو کسی پلازمہ کا کوئی مثبت اثر یقینی ہے اور نہ ہی اس سال کسی ویکسین کی توقع کی جا سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس اب بھی پھیل رہا ہےاور پہلے سے کہیں زیادہ اثرات دکھا رہا ہے۔