دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور اموات 8،000 سے تجاوز کر گئی ہیں۔ ساتھ ہی جو لوگ صحتیاب ہوئے ان کی تعداد 82،000 سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ یہ اعداد و شمار جانز ہاپکنز یونیورسٹی نے جاری کئے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے خبر دی ہے کہ یورپ میں سرحدوں پر آمد و رفت بند ہونے کی وجہ سے بدھ کے روز میلوں تک ٹرکوں کی لائنیں دیکھی جا سکتی تھیں۔
بدھ کی صبح آسٹریا کی جانب سرحد پر ٹرک 17 میل تک اور کاریں تقریباً نو میل تک کھڑی تھیں، کیونکہ صرف ہنگری کی گاڑیوں کو سرحد پار جانے کی اجازت تھی۔
یورپی یونین کے لیڈروں کی کوشش تھی کہ خوراک اور دوائیں سرحد پار جاتی رہیں مگر ٹریفک اس حد تک رک گئی تھی کہ کچھ بھی اس پار پہنچانا ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔
اسی دوران امریکہ اور کینیڈا کے درمیان غیر ضروری آمد و رفت عارضی طور پر بند کر دی گئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت دنیا کی حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ کرونا وائرس کے خلاف جامع اور تند و تیز اقدامات کریں، تاکہ یورپ اور دنیا کے دیگر ملکوں میں متاثرہ افراد کی تعداد کم ہو سکے اور اموات کو روکا جا سکے۔
کرونا وائرس سے متاثرہ اور موت کا شکار ہونے والے لوگوں کی سب سے بڑی تعداد اب بھی بحرالکاہل کے مغربی علاقے میں ہے جس میں چین شامل ہے۔ مگر اب یورپ دوسرے نمبر پر آنے کو ہے؛ اور اب وہاں کرونا وائرس کے مصدقہ مریضوں اور اموات کی تعداد دیگر تمام علاقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت WHO نے کہا ہے کہ یورپ میں اس تعداد میں اضافے کیلئے کسی ایک عنصر کو ذمے دار ٹھہرانا مشکل ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ترجمان، Christian Lindmeier نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا ادارہ ہفتوں سے خبردار کرتا رہا ہے کہ یہ وائرس بہت تیزی سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
وہ کہتے ہیں، "ساتھ ہی، جب آپ مریضوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ دیکھتے ہیں خواہ وہ اس لئے ہو کہ ان لوگوں کا جلد علم نہ ہو سکا یا کسی بد نصیب واقعے کی وجہ سے بہت سے لوگ ایک جگہ جمع ہو گئے، تو پھر گنجائش کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اور فی الوقت یورپ اسی سے دوچار ہے۔"
لنڈمائر کہتے ہیں وائرس نے حملہ کیا تو بہت سے ممالک ٹیسٹ، علاج اور مریضوں کا پتا لگانے کیلئے تیار نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں اب بھی کئی ممالک بہت سے ضروری اقدامات کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کے پاس طبی ساز و سامان، ٹیسٹ کی صلاحیت، عملے، مریضوں کیلئے بستروں اور وینٹیلیٹرز کی کمی ہے اور یہ ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔
دنیا بھر میں بہت سے ممالک انتہائی سخت اقدامات کر رہے ہیں جن میں خود کو تنہا کرنا، لوگوں سے ملنے جلنے سے گریز اور سفر کی پابندیاں شامل ہیں۔
لنڈمائر کہتے ہیں ملکوں کو وہی پالیسیاں اختیار کرنی چاہئیں جو ان کے لوگوں کیلئے فائدہ مند ہوں۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ چین اور سنگاپور نے بہت سخت سیاسی، طبی اور معاشرتی اقدامات کئے جن سے کرونا وائرس کے مریضوں اور اموات میں ڈرامائی کمی ہوئی۔
انھوں نے کہا ہے کہ "جو مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں، ان میں لوگوں کی معاشرتی زندگی کی مصروفیات میں بہت زیادہ کمی ہوئی ہے۔ ساتھ ہی بڑے پیمانے پر لوگوں کو ٹیسٹ کیا گیا۔ مریضوں کا پتا لگایا گیا اور یہی سب مفید رہا۔"
ڈبلیو ایچ او کے ترجمان کہتے ہیں کہ یہ پتا لگانا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ اٹلی، سپین، فرانس، سویٹزرلینڈ اور دیگر ممالک کے سخت اقدامات مفید ثابت ہو رہے ہیں یا نہیں، کیونکہ اس عالمی وبا کے دم توڑنے سے پہلے ابھی اسے انتہا تک پہنچنا ہے۔