کرونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز اس وقت سندھ میں رپورٹ ہوئے ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بڑھ رہے ہیں۔ سندھ حکومت کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کئی اہم اقدامات بھی کر رہی ہے۔
صوبائی حکومت نے شادی ہالز میں تقریبات، عوامی اجتماعات اور گلی محلوں میں ہونے والی مختلف تقریبات پر بھی پابندی لگا دی ہے جب کہ سرکاری دفاتر، شاپنگ مالز، سینما گھر، بازاروں اور تفریحی مقامات کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔
ان تمام اقدامات کا مقصد شہریوں کو گھروں میں زیادہ سے زیادہ رکھنا اور سماجی رابطوں کو محدود کر کے اس وبا کو پھیلنے سے روکنا ہے۔
دوسری جانب عوام دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی راشن کی خریداری کا سلسلہ جاری ہے۔ شہریوں نے کسی بھی ممکنہ لاک ڈاؤن کے پیشِ نظر احتیاطی اقدامات کے تحت گھروں میں راشن ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
شہر کے بڑے مارٹ ہوں یا گلی محلوں کی عام دکانیں، اس وقت ہر جگہ خریداروں کا رش دکھائی دے رہا ہے۔
گھر میں ضرورت کی تمام چیزیں موجود ہوں اور راشن کی کمی نہ ہو، اس سوچ نے مجھے بھی بازار کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔ اشیائے خور و نوش کے علاوہ مجھے سب سے زیادہ ضرورت ہینڈ سینیٹائزر کی تھی۔ لیکن تین بڑے سپر اسٹورز اور دو میڈیکل اسٹورز پر سینیٹائزر نہ ملا تو مجھے ایک اور مارٹ کا رخ کرنا پڑا۔
مارٹ میں داخل ہوتے ہی میں نے وہاں پہلی بار ضرورت سے زیادہ رش محسوس کیا۔ رش اس قدر زیادہ تھا کہ کرونا وائرس سے بچنے کی احتیاطی تدبیر یعنی لوگوں سے تین فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنا تو ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔
لوگ اپنی ٹرالیوں میں سامان بھر رہے تھے اور کوئی قیمت پر بھی بحث نہیں کر رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے جنگ کی سی کوئی صورتِ حال ہو۔
آٹا، چاول، چینی، چائے کی پتی، دودھ، دالیں، گھی اور تیل سب سے زیادہ خریدے جا رہے تھے۔ جو کوکنگ آئل ہمارے گھر میں استعمال ہوتا ہے، وہ وہاں میسر نہیں تھا۔ لیکن اب سوچنے کا وقت بھی نہیں تھا۔ صرف دو سے تین کمپنیوں کے کوکنگ آئل موجود تھے، میرے پاس وہی لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
چاول، دالیں، چائے کی پتی اور آٹا لینے کے بعد مجھے جو شیلفس خالی نظر آنے لگے ان میں ہینڈ واش اور سینٹائزر شامل تھے۔ کیش کاؤنٹر پر جب میری باری آئی تو میں نے سینیٹائزر کا پوچھا۔ مجھے جواب ملا کہ اگر آپ کو ضرورت ہے تو میں اندر سے کہہ کر منگوا دیتا ہوں۔ وہ بھی اس لیے کہ آپ ہماری ریگولر کسٹمر ہیں۔
مجھے کافی حیرت ہوئی کہ اگر یہ چیز موجود ہے تو اسے شیلف پر ہونا چاہیے نہ کہ اندر چھپا کر رکھا جائے۔ میرے دریافت کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ شیلف پر رکھے سینیٹائزر کو ہر شخص نے ایسے اٹھایا ہے جیسے اس نے سال بھر کا اسٹاک ذخیرہ کرنا ہو۔ اس لیے اسے شیلفس سے ہٹا دیا گیا ہے تاکہ طلب کرنے پر ایک فیملی کو ایک بوتل دے دی جائے۔
بلنگ کے دوران کیش کاؤنٹر پر کھڑا نوجوان کہنے لگا کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب سینیٹائرز شیلف میں رکھے رکھے دھول جم جاتی تھی۔ ہمیں بھی یہ لگتا تھا کہ اگر اس کی ضرورت ہے ہی نہیں تو یہ کیوں رکھی ہے؟ آج یہ وقت ہے کہ اسی کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ چیز ہی وائرس سے بچا سکتی ہے۔
میرے لیے جب سینیٹائزر آیا تو اسے ایک شاپر میں لپیٹ کر میرے سامان میں چھپا کر رکھا گیا تاکہ آس پاس کھڑے لوگ تقاضا نہ کریں اور اس چھوٹی سی بوتل کو میں نے 220 روپے کے عوض وصول کیا۔
ایک میڈیکل اسٹور والے نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اسپرٹ اور ڈیٹول کی مانگ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ کیوں کہ شہریوں نے ہینڈ سینیٹائزر کی عدم دستیابی کے سبب ان دونوں اشیا کو پانی میں ملا کر ہاتھ صاف کرنے کی ترکیب پر عمل شروع کر دیا ہے۔
لیکن دوسری جانب شہر میں دیہاڑی دار مزدور طبقہ بھی ہے جو مہینے بھر کا راشن گھر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ وہ روز کما کر روز کا راشن خریدتے ہیں اور اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ ان کے لیے صابن، ڈیٹول، ماسک اور ہینڈ سینٹائزر کسی لگژری آئٹم سے کم نہیں ہیں۔