سنتے آئے تھے کہ بچوں کے بچے بہت پیارے ہوتے ہیں۔ مگر اس کا احساس اس وقت تک نہیں ہوا جب تک کہ اس کا خود تجربہ نہیں ہوا۔
اپنی اولاد سب ہی کو پیاری ہوتی ہے، مگر اپنی اولاد کی اولاد ایسی نعمت ہے جو زندگی کو نہال کر دیتی ہے۔ ایک ایسی عمر میں نئی توانائی اور زندہ رہنے کا حوصلہ دیتی ہے جب قویٰ مضمحل اور اور جینے کی امنگ کم ہو رہی ہوتی ہے آنگن میں کھیلتے یہ ننھے پھول آنکھوں میں روشنی اور دل میں محبت بھر دیتے ہیں۔
آج کے حالات کی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ بھی لکھا جائے گا کہ کرونا وائرس نے اولاد کو مجبور کر دیا کہ وہ دور رہتے بوڑھے والدین سے ملنے سے گریز کریں۔ مغربی ملکوں میں نرسنگ ہومز میں مقیم معمر لوگوں سے ملنے کوئی نہ آئے۔
برطانوی وزیرِ اعظم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مدرز ڈے پر کوئی اپنی ماں سے ملنے نہ جائے۔ بات بہت سنگین ہے مگر کم از کم امریکہ میں کرونا وائرس سے پہلے پہل زیادہ کیسز ریاست واشنگٹن کے ایک نرسنگ ہوم میں سامنے آئے جہاں معمر لوگوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
مگر کرونا کی وبا نے تو نوجوانوں کو بھی نہیں بخشا۔ امریکہ میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی عمریں 20 سے 44 برس کے درمیان ہیں۔
یہاں امریکہ میں اگرچہ مشترکہ خاندان کا تصور نہیں ہے۔ بچے کالج کی عمر کو پہنچتے ہی والدین سے الگ رہنے لگتے ہیں مگر پھر بھی دادا دادی اور نانا نانی سے محبت میں کوئی کمی نظر نہیں آتی اور وہ بھی اپنی اولاد کی اولاد کو جان سے پیارا سمجھتے ہیں۔
بہت سے والدین کام پر جاتے ہوئے اپنے ننھے بچوں کو اپنے والدین کے گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ دن بھر بچہ خوش بھی اور محفوظ ہاتھوں میں بھی۔ دادا دادی بھی خوش اور نہال۔ لیکن کرونا وائرس کی وبا نے سب سے زیادہ خطرہ ان ہی دادا دادی اور نانا نانی کیلئے پیدا کیا ہے۔ مجبوراً والدین اپنے بچوں کو اپنے والدین سے دور رکھ رہے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے لنڈسے وٹہرسٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی ریاست ایریزونا کے شہر شینڈلر کی رہائیشی ڈیبی کیمرون کا پوتا روزانہ ان کے گھر آتا تھا اور وہ اسے کھلونوں سے کھیلتا اور نرسری کی نظمیں گاتا دیکھ کر خوش ہوتی تھیں۔ مگر کرونا وائرس کی وبا کے ساتھ ہی ان کی یہ خوشی بھی ختم ہو گئی۔ ڈیبی کی عمر 68 برس ہے چنانچہ ان کے بچوں نے ضروری سمجھا کہ انہیں محفوظ رکھنے کیلئے اپنے بیٹے کو ان سے دور رکھیں، کیونکہ ماہرین یہی کہتے ہیں کہ پچاس سے ساٹھ اور اس سے بڑی عمر کے لوگوں کو کرونا وائرس سے خطرہ زیادہ ہے۔ اگرچہ بچوں کو کرونا وائرس سے خطرہ نہیں ہے سوائے نو زائیدہ بچوں کے مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بچے یہ وائرس پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔
بھلا ہو اس جدید ٹیکنالوجی کا کہ دادا دادی اپنے بچوں کے بچوں سے فیس ٹائم پر بات کر سکتے ہیں۔ انہیں کھیلتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ اکثر مائیں اپنے ننھے بچوں کی شرارتوں کی وڈیو بنا کر نانا نانی یا دادا دادی کو بھیجتی ہیں جو ان کے چہروں پر بڑی سی مسکراہٹ لے آتی ہے۔ اور اگر وہ ساتھ رہتے ہیں تو پھر تو ہر دم ساتھ ہیں۔ لیکن کرونا وائرس سے احتیاط کی باتیں بچوں کو بھی سمجھ آنے لگی ہیں۔
شاہدہ کاظمی ایک شاعرہ اور مصنفہ ہیں اور اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی ساڑھے تین سال کی پوتی ان کے کمرے کے دروازے سے آگے نہیں آتی کہ دادو کو کرونا وائرس نہ لگ جائے۔ ان کی بیٹی کے اپنے بچے کافی بڑے ہیں مگر اپنی ماں سے دور رہنا اسے سخت پریشان کر رہا ہے۔ اس کا اصرار رہتا ہے" ماں میں آ جاؤں۔ بس بیک یارڈ سے آپ کو دیکھ لوں گی"۔۔۔۔
کومل کی بچیاں ہفتے میں ایک مرتبہ ملنے کیلئے آتی ہیں مگر کار کے اندر بند شیشوں سے صرف انہیں دیکھ سکتی ہوں۔ وہ باہر نکلنے کیلئے بے چین ہوتی ہیں۔ رونے لگتی ہیں اور ان کا باپ گاڑی بھگا کے لے جاتا ہے کہ ان ننھے فرشتوں کے آنسو کون دیکھ سکتا ہے۔
تفیصلی آڈیو رپورٹ مدثرہ منظر سے: