کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کی طرح فلسطینیوں کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ زندگی ان کے لیے بھی بالکل تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ خاص طور پر ان افراد کے لیے جو اسرائیل میں ملازمت کرتے ہیں۔
جمال سلمان تل ابیب میں ایک تعمیراتی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ان کی کمپنی میں دیگر فلسطینی بھی ان کی طرح دستانے پہن کر اور ماسک لگا کر کام کر رہے تھے۔ کمپنی نے انہیں رات میں رہنے کے لیے گھر بھی دیا تھا۔
لیکن اسرائیل میں کرونا وائرس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ان کی بیوی کو بہت پریشان کر دیا تھا اور وہ ان سے مسلسل واپس آنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ چنانچہ، گزشتہ ہفتے وہ مغربی کنارے اپنے گھر واپس آ گئے۔
اب وہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں اپنے بچوں اور بیوی سے دور قرنطینہ میں ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ گزارہ کیسے ہو گا۔ تل ابیب میں وہ پندرہ سو ڈالر ماہانہ کماتے تھے جو ان کی فیملی کے لیے کافی تھے مگر اب ان کی ملازمت ہی نہیں رہی۔ وہ کہتے ہیں کرونا وائرس ایک کھلی جنگ ہے اور سب بھگت رہے ہیں۔
کرونا وائرس کی وبا نے ان ہزاروں فلسطینیوں کو تردد میں ڈال دیا ہے جو اسرائیل میں مزدوری کرتے تھے اور اب ان کی آمد و رفت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اب وہ یا تو اسرائیل میں رک سکتے ہیں جہاں مزدوری زیادہ ہے مگر کرونا وائرس کی شدت بھی زیادہ ہے۔ یا مغربی کنارے میں اپنے گھر واپس آکر قرنطینہ کی پابندیوں اور بے روزگاری کا سامنا کر سکتے ہیں۔
دونوں جانب حکام بھی اسی صورتِ حال سے دوچار ہیں، کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اس وائرس سے کیسے نمٹیں جو ان دیواروں کی پرواہ نہیں کر رہا جو عشروں سے جاری تنازع کے دوران تعمیر کی گئی ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی دونوں نے مارچ کے مہینے میں سخت لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا، مگر مزدوروں کو اسرائیل میں رہنے ہی کی اجازت تھی مگر انہیں مغربی کنارے آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔
تاہم، بہت سے فلسطینیوں نے اپنے گھروں کو جانے کو ترجیح دی، کیونکہ ایسٹر کے تہوار کی وجہ سے مزدوری ملنا مشکل ہو گیا تھا۔ اور فلسطینی وزیرِ محنت نصری ابو جیش نے بتایا ہے کہ صرف منگل کے روز آٹھ ہزار محنت کش واپس آئے ہیں۔
اور ان کی واپسی سے نہ صرف عام لوگوں کی صحت بلکہ فلسطینی معیشت کیلئے بھی خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اور فلسطینی حکام کے مطابق، کرونا وائرس کے250 مریضوں میں سے 83 فیصد وہ ہیں جو اسرائیل سے واپس آنے والے کارکنوں کی وجہ سے بیمار ہوئے۔
صحت کے فلسطینی حکام کہتے ہیں کہ سرحدیں بند ہیں اور سفر کی اجازت بھی نہیں۔ اس لئے، اس انفیکشن کا واحد ذریعہ اسرائیل ہے جہاں اس وبا کا بہت زور ہے۔
جیرلڈ راکن شواب فلسطینی علاقوں کے لئے عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فلسطینی حکام نے اس وبا کو روکنے کیلئے مؤثر اقدامات کئے ہیں اور اسرائیل سے آنے والے کارکنوں کو قرنطینہ میں رکھنا بہتر ہے، مگر یہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے، کیونکہ سب کارکنوں کا اندراج نہیں ہے۔
مغربی کنارے کے 24 سالہ محمد فلاح روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرتے ہیں۔ وہ منگل کے روز اسرائیل سے واپس آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اگر اور کام ملتا تو وہ کبھی واپس نہ آتے، کیونکہ وہاں وہ ستر ڈالر روز کما رہے تھے جو مغربی کنارے میں مزدوری سے دو گنا ہے۔ وہ کہتے ہیں ان کا ارادہ شادی کرنے اور گھر بنانے کا تھا مگر اب کچھ ممکن نظر نہیں آتا۔
سرحد پار کرتے وقت وہاں موجود صحت کے کارکنوں نے ان پر جراثیم کش سپرے کیا اور بخار نہ ہونے کے باوجود انہیں چودہ روز تک قرنطینہ میں رہنے کیلئے کہا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اس کی پابندی کریں گے، کیونکہ وہ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔