کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے لیے دنیا کے سب سے بڑے برساتی جنگل ایمیزون میں بھی آمد و رفت کو محدود کر دیا گیا ہے۔ کشتی کے ذریعے جنگلات تک رسائی کے راستوں کو صرف ضروری سامان کی ترسیل کے لیے کھولا جا رہا ہے جس سے درجنوں دیہات کا دنیا سے رابطہ کٹ کر رہ گیا ہے۔
ایمیزون جنگل میں کشتیاں، موٹر بوٹس، فیریز ان علاقوں میں کاروں، بسوں اور ٹرکوں کا کام کرتی ہیں جو دریا کے ذریعے لوگوں اور سامان کو دور دراز کے علاقوں تک پہنچاتی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'فرانس 24' کے مطابق برازیل کی ریاست ایمیزوناس کے حکام نے علاقے میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ان علاقوں میں آنے والی دریائی ٹریفک کو محدود کر دیا ہے۔ تاکہ اس علاقے میں وائرس کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔
یہ جنگلات ریاست ایمیزوناس کا حصہ ہیں۔ ایمیزوناس برازیل کی سب سے بڑی ریاست ہے، جس کے گنجان جنگلات 15 لاکھ مربع کلو میٹر (چھ لاکھ مربع میل) پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ جنوبی امریکی ملک پیرو اور ایکواڈور کے مشترکہ سائز کے برابر ہے۔
مذکورہ ریاست میں کووڈ-19 کے 532 کیسز جب کہ 19 اموات ہو چکی ہیں۔ حکام کو خدشہ ہے کہ اگر یہ وائرس بارشوں کے اس جنگل خصوصاً وہاں کے رہائشی علاقوں میں پھیلا تو اس سے بڑی تباہی ہو سکتی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہاں کارگو ٹرانسپورٹ چل رہی ہے، لیکن مسافروں کی آمد و رفت غیر معمولی حالات جیسے طبی ہنگامی صورتِ حال اور پیرامیڈکس اور پولیس جیسی ضروری خدمات تک ہی محدود ہے۔
جن کشتیوں کو ایمیزون میں داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اُنہیں پابند کیا گیا ہے کہ وہ گنجائش سے کم مسافروں، صابن، ہینڈ سینیٹائزرز اور پانی کی ترسیل ہی کر سکتے ہیں۔
ایمیزوناس فیڈرل یونیورسٹی میں نقل و حمل کی منصوبہ بندی کے ماہر ایلیسنڈرا مارٹنز پونٹیس کا کہنا ہے کہ "یہاں نقل و حمل کا 85 فی صد انحصار دریاؤں کے ذریعے ہوتا ہے۔ لیکن اس وبائی مرض کے باعث یہاں کے لوگ ایک تلخ حقیقت کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔"
ںقل و حمل کے لیے یہاں کے مسافر بھاپ سے چلنے والے انجن پر مشتمل کشتیوں میں سفر کرتے ہیں۔ یہ سفر کئی دنوں تک بھی محیط ہوتا ہے لہذٰا مسافر اوپر تلے چارپائی بستروں پر آرام کرتے ہیں۔ لیکن حکام نے اب اُنہیں پابند کیا ہے کہ وہ کم سے کم اپنے درمیان دو میٹر کا فاصلہ رکھیں۔
ماہرین صحت کے مطابق یہاں کے رہائشیوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ اس درآمدی بیماری سے ہے۔ کیوں کہ یہ باقی دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزارتے ہیں۔ یہ بہت سے جراثیم سے پاک ہیں، جن کا سامنا بیشتر دنیا کی آبادی کر چکی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس برساتی جنگل میں کرونا وائرس کا تاحال کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ لیکن آمد و رفت محدود کرنے سے یہاں کی مقامی آبادی کو معاشی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جو اپنی مقامی پیداوار فروخت کر کے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔