گزشتہ ہفتے جنیوا میں منعقد ہونے والی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں جعلی ادویات کے خطرات گفتگو کا موضوع بنے رہے۔ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ انٹرنیٹ پر خریدی جانے والی نصف سے زیادہ ادویات جعلی ہوسکتی ہیں ۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سنگین مسئلے کا کوئی واحد حل نہیں ہے۔
گذشتہ سال نائیجیریا میں84 نوزائیدہ بچے ملاوٹ شدہ دوا پینے سے ہلاک ہوگئے تھے ۔ محفوظ ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنے والی تنظیم فارما سیوٹیکل سیکیورٹی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پچھلے سال جعلی ادویات کے استعمال سے بیماریوں اور ہلاکتوں کے 2000 سے زیادہ واقعات ہوئے ۔یہ تعداد 2008ء کے مقابلے میں نو فیصد سے زیادہ ہے ۔
ادویات کی تیاری اور ان کی ریسرچ سے متعلق ایک بڑے ادارے PhRma کے ڈائریکٹر سکاٹ لاگنگا کا کہنا ہے کہ گھٹیا معیار کی نقلی ادویات بیچنا آسان اور نفع بخش کام ہے ۔
جعلی ادویات کی تیاری اور ان کی فروخت امیر اورغریب دونوں ممالک کے لیے ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہیں ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق فروخت کے لیے پیش کی جانے والی جعلی ادویات میں زیادہ تر ہارمونز ، سٹیراوئیڈز اور کینسر کی روک تھام کی دوائیں شامل ہوتی ہیں ۔جب کہ ترقی پذیر ممالک خاص طور پر افریقہ میں ملیریا، تپ دق اور ایچ آئی وی ایڈز جیسی مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے جو دوائیں خریدی جاتی ہیں ، ان میں زیادہ تر جعلی ہوتی ہیں۔
اشیفی گوگو صارفین کو جعلی مصنوعات سے بچانے کے لیے کام کرنے والی ایک کمپنی کے سربراہ ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ نائیجیریا کی حکومت ان کی کمپنی کی متعارف کردہ موبائیل فون ٹیکنالوجی کے ذریعے اس خطرے کا مقابلہ کر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی نے ایک ایسی ٹیکنالوجی تیار ہے جس کی مدد سے صارفین ادویات خریدتے وقت یہ پرکھ سکتے ہیں کہ وہ اصلی ہیں یا نقلی ۔
لاٹری کے ٹکٹ کی مانند تقریباً ہر دوا پر ایک سکریچ پینل ہوتا ہے جسے کھرچنے سے اس کے نیچے چھپا ہوااس دوا کا مخصوص نمبر ظاہر ہو جاتا ہے ۔دوا خریدنے والا اس نمبر کو ٹیکسٹ میسیج میں بھیجتا ہے اور اسے فوراً ہی اس دوا کے اصلی یا نقلی ہونے کے بارے میں جوابی پیغام مل جاتا ہے
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگرچہ جعلی ادویات دنیا بھر میں فروخت ہوتی ہیں،تاہم امیر ممالک ان پر نظر رکھنے اور ان کی فروخت روکنے میں زیادہ کامیاب رہتے ہیں ۔