رسائی کے لنکس

میمو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش


میمو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش
میمو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش

حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے عدالت عظمٰی میں دائر اپنی آئینی درخواست میں استدعا کی ہے کہ صدر آصف علی زرداری سے منسوب اس ’میمو‘ یا خط کی تحقیقات کر کے اس میں ملوث افراد کی نشاندہی کی جائے۔

پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نےعدالت عظمٰی میں جمع کرائے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکی قیادت کو بھیجا گیا وہ ’میمو‘ یا مکتوب جس میں اُن کے ادارے پر بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا گیا قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش تھی۔

جمعہ کو مقامی اخبارات نے اس بیان کی تفصیلات شائع کی ہیں جن میں جنرل کیانی نے ’میمو‘ کو پاکستانی فوج کے حوصلے پست کرنے کی ایک ناکام کوشش قرار دیا۔

’’میں نے وزیراعظم کو یہ سفارش بھی کی کہ وقت ضائع کیے بغیر ہمیں سچائی کا پتا لگانا ہوگا جس سے ملک پر اس کے منفی اثرات کا تدارک کیا جائے۔‘‘

پاکستانی فوج کے سربراہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ میمو کا وجود ہے اور اس کی امریکی حکام کو ترسیل اور وصولی کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ لہذا میمو کی منصوبہ بندی اور اجراء کے محرکات اور حقائق کا مکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‘‘

بیان کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے میمو کے معاملے اور اس تنازع کے مرکزی کردار پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز سے ملاقات کی تفصیلات سے جنرل کیانی کو 24 اکتوبر کو آگاہ کیا، اور جنرل پاشا کے خیال میں مکتوب کے وجود اور اس کو ایڈمرل مائیک ملن تک پہنچانے کے بارے میں ’’کافی شواہد‘‘ دستیاب تھے۔

’’اُنھوں (جنرل پاشا) نے رائے دی کہ منصور اعجاز کے فراہم کردہ شواہد یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ مسٹر حسین حقانی مئی 2011ء کے بعد سے اُس (منصور اعجاز) سے رابطے میں رہے اور (موبائل پر) پیغامات اور ٹیلی فون کالز کا تبادلہ کیا۔ ان پیغامات اور ٹیلی فون کالز کے سلسلے نے حقانی کی میمو سے وابستگی کے بارے میں معقول شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔‘‘

جنرل کیانی نے تحقیقات کی نوعیت کے بارے میں کوئی اظہار خیال نہیں کیا، البتہ مقامی میڈیا کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر عدالت میمو سے متعلق شواہد اکٹھا کرنے کے لیے کوئی کمیشن تشکیل دیتی ہے تو وہ اُس کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔

حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے عدالت عظمٰی میں دائر اپنی آئینی درخواست میں استدعا کی ہے کہ صدر آصف علی زرداری سے منسوب اس ’میمو‘ یا خط کی تحقیقات کر کے اس میں ملوث افراد کی نشاندہی کی جائے۔

اس مقدمے کے دس فریقین میں پاکستانی صدر، وفاق، امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی، فوج کے سربراہ اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ منصور اعجاز بھی شامل ہیں جو پاکستانی نژاد امریکی شہری اور ’میموگیٹ‘ کے نام سے پکارے جانے والے اس اسکینڈل کے ایک مرکزی کردار ہیں۔

میمو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش
میمو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش

مبینہ صدارتی خط کے معاملے کا انکشاف منصور اعجاز نے ایک برطانوی اخبار میں دس اکتوبر کو شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کیا تھا۔ اُنھوں نے الزام لگا رکھا ہے کہ یہ ’میمو‘ اُنھوں نے گیارہ مئی کو امریکی حکام تک پہنچایا تھا اور انھیں یہ مشن اُس وقت واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے سونپا تھا جو اس مکتوب کے مصنف بھی تھے۔

حقانی اس متنازع خط سے لاتعلقی کا اظہار کرچکے ہیں لیکن اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد وہ سفیر کے عہدے سے مستفی ہوچکے ہیں۔

پاکستانی صدر سے منسوب اس مکتوب میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ دو مئی کو اُسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لیے ایبٹ آباد میں کی گئی یکطرفہ امریکی فوجی کارروائی پرپاکستان کی فوج غضبناک ہوچکی ہے اوربغاوت کے ذریعے سیاسی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس ممکنہ بغاوت کو روکنے کے لیے فوجی قیادت کی برطرفی کے سلسلے میں امریکہ سے مدد مانگی گئی تھی۔

امریکی وزیر دفاع کے عہدے دار ’میمو‘ موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہیں لیکن ان کے بقول اس کی کوئی ساکھ نہ ہونے پراسے نظر انداز کردیا گیا۔

عدالت عظمٰی میں ’میمو‘ اسکینڈل کی آئندہ سماعت پیر 19 دسمبر کو ہوگی اور اب تک دس میں سے چھ فریق چیف جسٹس کی قیادت میں نو رکنی بنچ کی ہدایت پر اپنا تحریری موقف پیش کرچکے ہیں۔

صدر زرداری ان دنوں عارضہ قلب کے علاج کے لیے دوبئی میں مقیم ہیں اس لیے اٹارنی جنرل کے بقول وہ جواب داخل کرنے سے قاصر ہیں۔

بعض مبصرین کے خیال میں ’میمو‘ اسکینڈل سے متعلق مقدمے میں صورت حال واضح ہونے تک صدر پاکستان وطن واپس نہیں آئیں گے کیونکہ اگر حسین حقانی پر الزام ثابت ہوتا ہے تو صدر زرداری بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ لیکن صدر کے مشیر ان خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔

منصور اعجاز اور حسین حقانی بھی اپنے جواب داخل کراچکے ہیں۔ سابق سفیر نے عدالت عظمٰی سے اس مقدمے کے عدالت معیار پر پورا نہ اترنے کا موقف اپناتے ہوئے اسے خارج کرنے کی درخواست کر رکھی ہے۔ ان کے بقول منصور اعجاز کے الزامات محض ایک افسانہ اور من گھڑت ہیں۔ لیکن امریکی شہری کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کےلیے کافی ثبوت ہیں۔

XS
SM
MD
LG