پشاور ہائی کورٹ نے 'غگ' کی رسم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا اور اس سے ملحق قبائلی علاقوں میں کسی بھی شخص کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ 'غگ' کی بنیاد پر کسی خاتون کو کسی دوسری جگہ شادی سے روک دے۔
غگ کے لغوی معنی آواز کے ہیں۔ پختون معاشرے میں 'غگ' ایک ایسی رسم ہے جو ایک فرد یا خاندان کے دوسرے خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون یا لڑکی کو پابند کرتی ہے کہ اس کی شادی اسی فرد یا اس خاندان میں ہوگی۔
'غگ' کی صورت میں متعلقہ خاتون یا لڑکی عمر بھر کسی دوسری جگہ یا کسی دوسرے شخص سے شادی نہیں کر سکتی۔ اس رسم کے خلاف نہ صرف انسانی و خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں آواز اٹھاتی رہی ہیں بلکہ مختلف سیاسی جماعتیں بھی اس کے خلاف ہیں۔
خیبر پختونخوا کے قانون مجریہ 2013ء کے تحت 'غگ' کو نہ صرف پہلے ہی غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت اسے متصل قبائلی علاقوں میں بھی غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اکرام اللہ اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ فیصلہ صوابی میں رہائش پذیر اور قبائلی علاقے باجوڑ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی طرف سے دائر درخواست پر سنایا ہے۔
درخواست گزار خاتون نے عدالت کو بتایا تھا کہ جب وہ دو سال کی تھیں تو شیر محمد نامی شخص نے ان کا رشتہ اپنے بیٹے افتخار کے لیے مانگا تھا تاہم درخواست گزار کے والد سلیم جان نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کی بیٹی پہلے تعلیم مکمل کرے اور بعد میں اپنی مرضی سے شادی کرے۔
تاہم درخواست گزار کے بقول 2005ء میں شیر محمد نے 'غگ' کے ذریعے اعلان کیا کہ مسماۃ امینہ ان کے بیٹے افتخار کی بیوی ہے اور وہ تاحیات کہیں اور شادی نہیں کرسکتی۔
امینہ کی عمر اب 26 سال ہے اور انہوں نے نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ان کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت دی جائے۔
عدالت نے درخواست کے کے حق اور مخالفت میں دلائل سننے کے بعد اپنے فیصلے میں 'غگ' کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خاتون کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت دے دی ہے اور ان کے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ شیر محمد کے خلاف صوابی کے کسی بھی پولیس تھانے میں ایف آئی درج کراسکتے ہیں۔