اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو پسند کی شادی کرنے والی ایک نو مسلم خاتون اور ان کے شوہر کو 25 اگست تک تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔
جمعے کو عدالت میں سکھر کی رہائشی نو مسلم خاتون ماریہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں بیان دیا کہ اس پر کوئی دباؤ نہیں اور اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کے بعد بلاول سے شادی کی ہے۔
عدالت کے سامنے 21 سالہ ماریہ کے چچا کشن لال نے موقف اختیار کیا کہ ان کی بچی پر دباؤ ڈال کر بیان حاصل کیا گیا ہے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ بچی کی اس کے والدین سے ملاقات کرائی جائے اور اسے دارالامان بھیجا جائے۔
عدالت کے استفسار پر ماریہ نے کمرۂ عدالت میں کلمہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس نے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا ہے۔
ماریہ کے چچا کشن لال نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی پاکستانی ہیں، جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے تمام پاکستانی قانون کی نظر میں برابر ہیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر نومسلم ماریہ کی اس کے والدین سے عدالت میں ملاقات کرائی جائے۔
اس موقع پر ماریہ کے شوہر بلاول کے وکیل ذولفقار کورائی نے عدالت کو بتایا کہ ماریہ کے شوہر بلاول بھٹو کے خاندان کے خلاف سکھر میں اغوا اور چوری کا مقدمہ درج کرایا گیا ہے اور بلاول کے خاندان کے 15 افراد غیر قانونی حراست میں ہیں۔
اس موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ یہ کاروکاری کا سلسلہ کب بند ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ کہیں ماریہ اس پاداش میں نہ ماری جائے کہ وہ مسلمان ہو گئی ہے اور اس نے پسند سے شادی کرلی ہے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 25 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے پولیس کو حکم دیا کہ نوبیاہتا جوڑے کو سکیورٹی فراہم کی جائے۔
پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ میں جہاں بڑی تعداد میں ہندو آباد ہیں، ہندو خواتین اور لڑکیوں کے قبولِ اسلام اور مسلمان لڑکوں سے پسند کی شادی کے واقعات اکثر پیش آتے ہیں جس کے خلاف ہندو اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کو سخت تحفظات ہیں۔