پاکستان کی ایک عدالت نے ممبئی حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز ذکی الرحمن لکھوی کی نظر بندی کے خلاف درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا ہے۔
جمعہ کو لاہور ہائی کورٹ میں اس درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ حکومت نے ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھوی کو قانون کے مطابق نظر بند کیا ہے اور اگر انھیں رہا کیا جاتا ہے تو حالات خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
ذکی الرحمن لکھوی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کی مزید نظر بندی قانون کی خلاف ورزی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی ’’توہین‘‘ ہے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد حکومت کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے درخواست خارج کر دی۔
گزشتہ ہفتے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں حکومت سے کہا تھا کہ اگر لکھوی کے خلاف کوئی اور مقدمہ نہیں ہے تو انھیں رہا کر دیا جائے۔
لیکن اس فوراً بعد حکام نے انھیں خدشہ نقض امن کے قانون کے تحت دوبارہ تحویل میں لے لیا تھا۔ اس نظر بندی کے خلاف لکھوی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی تھی۔
لکھوی 2008ء میں ہوئے ممبئی حملوں کے پاکستان میں جاری مقدمے کے علاوہ چھ سال قبل ایک شخص کے اغوا کے مقدمے میں ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔
لیکن حکومت نے انھیں خدشہ نقض امن کے قانون کے تحت 19 دسمبر کو ایک ماہ کے لیے نظر بند کر دیا تھا جس میں دو بار ایک، ایک ماہ کی توسیع کی گئی تھی۔
26 نومبر 2008 کو بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور بھارت اس کا الزام پاکستان میں موجود کالعدم تنظیم لشکر طیبہ پر عائد کرتا ہے۔
ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت پر رہائی کے خلاف بھارت نے پاکستان سے شدید احتجاج کیا تھا اور یہ معاملہ بھی دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان تلخی کا سبب بنا ہے۔
تاہم پاکستان کا موقف ہے کہ وہ ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں اپنے ہاں قید افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے ہوئے لیکن اس معاملے میں تاخیر بھارت کے عدم تعاون کی وجہ سے ہو رہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ عدالتی معاملات ہیں اور دونوں جانب کے مقتدر حلقوں کو اسے اپنے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونے دینا چاہیے۔
جمعہ کو ہی اسلام آباد میں قانون سازوں کے ایک نمائندہ وفد سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو درست سمت پر لانے کے خواہاں ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں بھارت کے سیکرٹری خارجہ کے دورہ پاکستان سے دوطرفہ تعلقات میں پائے جانے والے تناؤ میں بظاہر کچھ کمی آئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے اعلیٰ سطحی سفارتی رابطوں کے بعد دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت میں باضابطہ رابطے ممکن ہو سکیں گے۔