رسائی کے لنکس

کیا کرونا وائرس کی احتیاطی پابندیاں ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن جائیں گی؟


کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی گریجویشن کی تقریب میں آنے والے ایک طالب علم کی موٹر گاڑی کی کھڑکی پر تحریر کردہ ایک کہاوت۔
کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی گریجویشن کی تقریب میں آنے والے ایک طالب علم کی موٹر گاڑی کی کھڑکی پر تحریر کردہ ایک کہاوت۔

کرونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کےسلسلے میں ہم نے جو احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں، اب ان کی عادت بھی پڑتی جا رہی ہے؛ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی ہمارے معمولات میں شامل ہیں۔ کچھ ماہرین نے کرونا کے بعد کیا ہوگا کے بارے میں پیش گوئی کی ہے۔

بہت سے ممالک کرونا وائرس کے سلسلے میں قرنطینہ سمیت پابندیوں کو نرم کر رہے ہیں۔ مگر اس وبا کے اثرات ہماری زندگی سے فوری طور پر غائب نہیں ہوں گے۔ امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ملکوں میں روزمرہ زندگی ماضی جیسی نہیں ہو گی۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ نرمی کے باوجود ماسک اور سماجی دوری کی تلقین جاری رہے گی۔ امریکہ کی کچھ ریاستوں اور دنیا کے کچھ ملکوں میں ہوٹل، ریستوران، اندرونِ ملک ہوائی اور زمینی سفر بحال ہو رہا ہے۔

امریکہ کی آدھی سے زیادہ ریاستوں میں قرنطینہ کی پابندیاں نرم کر دی گئی ہیں۔ فلوریڈا اور کیلی فورنیا کی ریاستوں نے اپنے تفریحی ساحل کھول دیے ہیں۔ ہوٹل، ریستوران اور دیگر کاروبار کھولنے کی اجازت مل گئی ہے۔ مگر ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ قائم رکھنے کی شرط قائم ہے۔

عام لوگ بھی ان پابندیوں کو اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں اور ان پر نہ صرف خود بلکہ دوسروں سے بھی پابندی کا تقاضہ کرتے ہیں۔

کرونا وائرس کے سلسلے میں ہم نے جو احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں اب ان کی عادت بھی پڑتی جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی ہمارے معمولات میں شامل ہیں۔

ماحولیات کے ایک انسٹیٹیوٹ کے اہل کار جیمز ہالینڈ کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں سر عام تھوکنا معیوب بات نہیں تھی۔ لیکن، انیس سو اٹھارہ کے عالمگیر وبائی مرض (فلو) کے بعد ہم نے یہ سیکھا کہ اس طرح تھوکنا منع ہے اور اب یہ ہماری عادت کا حصہ بن چکا ہے۔ اسی طرح جہاں واٹر فائونٹین ہوتے تھے، وہاں صرف ایک ہی گلاس ہوتا تھا، مگر اس وبا کے دوران اس پر پابندی لگ گئی۔ وبا ختم ہونے کے بعد یہ پابندی ہماری عادت بن گئی ہوگی۔

غرض ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو اس سلسلے میں دی جا سکتی ہیں۔

اسی طرح، سماجی فاصلہ قائم رکھنا شائد کرونا وائرس کے خاتمے کے بعد بھی جاری رہے، چاہے جِم ہو، پارک ہوں یا بیچ ہوں۔ یونیورسٹی آف نیو ہیون میں ہیلتھ سائینسیز کے ڈین، پروفیسر سمٹ میکگی کہتے ہیں کہ جم میں ورزش کرتے ہوئے ماسک پہننا تکلیف دہ ہے۔ اس لیے شائد یہ عادت نہ بن سکے۔

لیکن، سماجی دوری پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ قائم رہے گی۔ اسی طرح سینیٹائزر کا استعمال بڑھ جائے گا۔ ہاتھ ملانے، گلے ملنے ایک دوسرے کے گالوں پر بوسہ دینے کا رواج بھی بتدریج کم ہو گا۔

کینیڈی انسٹی ٹیوٹ آف ایتھکس (اخلاقیات) کے قائم مقام ڈائرکٹر ڈینیل سلمیسے کہتے ہیں کہ شروع میں آپ کو بتانا ہو گا کہ گلے نہ ملنے میں ہم دونوں کا فائدہ ہے۔ پھر رفتہ رفتہ اس کی عادت پڑ جائے گی۔

نیو ہیون یونی ورسٹی کے پروفیسر سمر میکگی کہتے ہیں کہ گھروں میں محدود رہنے اور سفر نہ کرنے کی بات زیادہ عرصے نہیں چل سکے گی۔ جیسے ہی کوئی ویکسین آگئی اور اس کا زور ٹوٹ گیا، لوگ نارمل زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سرنگ کے اس پار روشنی ہے اور یہ کرونا ہمیشہ نہیں رہے گی۔

اکثر امریکی گھروں میں زیادہ وقت نہیں گزار سکتے۔ اس لیے ماسک یا سماجی دوری کی پابندی انہیں باہر نکلنے اور سفر کرنے سے روک نہیں سکے گی۔

XS
SM
MD
LG