بنگلہ دیش میں کام کرنے والی امدادی تنظیموں کا خیال ہے کہ جنوبی بنگلہ دیش میں قائم روہنگیا کیمپوں میں اگلے چند ہفتوں میں کرونا وائرس کی وبا مزید پھیل گئی تو موجود سٹاف اور طبی ساز و سامان کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی۔
جنوبی بنگلہ دیش میں ہزاروں روہنگیا کیمپوں میں زندگی گذار رہے ہیں۔ وہاں پر بہت سی عالمی امدادی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جن میں طبی ٹیمیں بھی شامل ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے اندر ان کیمپوں میں کرونا وائرس کا شدید حملہ متوقع ہے اور ایسی صورت میں نہ صرف کام کرنے والا سٹاف کم پڑ جائے گا بلکہ امدادی اور طبی سامان کی قلت ہو گی اور راشننگ کرنا پڑ سکتی ہے۔ یعنی مریضوں میں سے ایسے مریضوں کا انتخاب کرنا پڑے گا جن کو علاج کی اشد ضرورت ہے۔
اس وقت کاکس بازار میں تیس لاکھ سے زیادہ لوگ مقیم ہیں، جن میں سے تقریباً آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار روہنگیا انتہائی نامسائد حالات میں مہاجر کیمپوں میں زندگی گذار رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ان افراد کی ہے جو میانمار سے حکومت کے مظالم سے تنگ آکر ترک مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، ابھی تک ان کیمپوں میں انیس کیسیز رپورٹ ہوئے ہیں۔ مگر طبی ماہرین کا اندازہ ہے کہ جلد ہی یہ وبا شدت اختیار کرے گی۔ عالمی تنظیم، 'سیو دی چلڈرن' کے اعلیٰ عہدے دار نے کہا ہے کہ ان کیمپوں کے حالات کرونا وائرس کے پھیلنے کے لیے بے حد سازگار ہیں۔ جن حالات اور ماحول میں وہ رہ رہے ہیں وہ ہر اعتبار سے ناقص اور خراب ہیں۔ یہاں کسی قسم کی احتیاط ممکن نہیں ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، کاکسس بازار میں اٹھارہ وینٹی لیٹرز ہیں اور یہ کیمپوں سے خاصے فاصلے پر واقع ہیں۔ حالیہ مہینوں میں امدادی گروپوں نے کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے علاج کی کچھ سہولتیں تیار کی ہیں۔ ان کا پروگرام ہے کہ جولائی تک سات مزید طبی مراکز قائم کر لیے جائیں گے۔
موجودہ طبی سہولتوں کو سامنے رکھتے ہوئے، کاکسس بازار میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر کائی وان ہار بو کہتے ہیں کہ اس وقت جو سہولتیں میسر ہیں، وہ کافی نہیں اور ہمیں اس کے بارے خاصی تشویش ہے۔
ایک اور عالمی تنظیم، 'ڈاکٹرز ودہاآوٹ بارڈرز' کے پال بروکمین کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں ڈاکٹروں کو مریضوں میں سے چند کا انتخاب کرنا ہوگا، کیوں کہ سب کا علاج ممکن نہیں ہو سکے گا۔ یہ تنظیم مزید تین سو ہیلتھ ورکرز کو ملازم رکھ رہی ہے۔
بروکمین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ہمیں خاصی دشواریوں کا سامنا ہے کیوں کہ تربیت یافتہ سٹاف کی بنگلہ دیش میں قلت ہے۔ بیرون ملک سے طبی ماہرین کو بلانا بھی دشوار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیلتھ سٹاف کے لیے حفاظتی لباس بھی نہیں ہے اور اسے جلد بنگلہ دیش لانا بھی ممکن نہیں۔
ان کیمپوں میں کام کرنے والی امدادی تنظیمیں اپنے طور سے کوشش کر رہی ہیں کہ کیمپوں میں صاف پانی، صابن اور سینیٹائزر فراہم کیا جائے۔ مگر کیمپوں میں مہاجرین مشرکہ ٹوائیلٹ استعمال کرتے ہیں، جہاں اس طرح کی احتیاط ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح پانی کے حصول کے لیے ایک ہینڈ پمپ کو بہت سے لوگ استعمال کرتے ہیں اور یہاں بھی وائرس ایک دوسرے کو آسانی سے منتقل ہو سکتا ہے۔
امدادی ادارے ان کیمپوں میں مقیم مہاجروں کو کرونا وائرس کے خطرات سے آگاہ کرنے کے کئی پروگرام چلا رہے ہیں، تاکہ انہیں اس مرض میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے۔
مگر ان کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرانا بہت مشکل ہے، کیوں کہ یہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ تنظیم، 'سیو دی چلڈرن' کے اہل کار کا کہنا ہے کہ عالمگیر وبا کے ہوتے ہوئے مہاجر کیمپ اس دنیا میں آخری جگہ ہوگی جہاں کوئی جانا پسند کرے گا۔