اس ماہ نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں ہونے والے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل یعنی آئی سی سی کے خصوصی اجلاس میں پاکستان سمیت آئی سی سی کے تمام رکن ممالک نے نئے کرکٹ لیگ کے ڈھانچے کی اصولی منظوری دی جس پر 2019 کے ورلڈ کپ کے بعد عملدرآمد کیا جائے گا۔ تاہم پاکستان نے اس اجلاس میں واضح کر دیا کہ اس کا حتمی فیصلہ تین برس قبل بھارت کے ساتھ طے ہونے والے دوطرفہ معاہدے کی بھارت کی طرف سے پاسداری پر منحصر ہو گا۔
پاکستان کے اس مؤقف کی بنا پر آئی سی سی کی ٹیسٹ اور ون ڈے لیگ کا انعقاد اُس وقت تک ممکن نہیں ہو گا جب تک پاک۔بھارت دو طرفہ سیریز کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ پاکستان نے پہلے ہی بھارت کے ساتھ اُن دو دوطرفہ سیریز کا ہرجانہ طلب کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی شروع کر دی ہے جو اس سمجھوتے کے تحت 2015 اور 2016 میں ہونے تھے لیکن بھارت کے انکار کی وجہ سے ممکن نہ ہو پائے۔ بھارت کے ساتھ دو طرفہ سیریز کے معاہدے کے حوالے سے پچھلے دنوں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین شہریار خان نے یہ کہا تھا کہ قانونی جنگ لڑنے سے پاکستان کو فائدہ نہیں ہو گا اور اس سلسلے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھارتی کرکٹ بورڈ سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئیے۔ تاہم اس بیان کے اگلے ہی روز اُنہوں نے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن سے منسوب یہ بیان درست نہیں ہے اور پاکستان بھارت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی نے وضاحت کی ہے کہ قانونی طور پر پاکستان کا مؤقف بہت مضبوط ہے اور اسے جاری رکھا جائے گا۔ اُدھر دونوں ملکوں کے کرکٹ بورڈز کے درمیان 2014 میں طے ہونے والے سمجھوتے کے گزشتہ ہفتے لیک ہو جانے سے بھی یہ معاملہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اس سمجھوتے کی کاپی جب سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تو دونوں ملکوں کے کرکٹ بورڈ نے اس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا تھا۔
یہ سمجھوتہ باقاعدہ لیٹر ہیڈ کے بجائے سادہ کاغذ پر لکھا گیا اور اس پر 9 اپریل 2014 کی تاریخ درج ہے۔ اسے بھارتی کرکٹ بورڈ کے سابق سیکٹری سنجے پٹیل نے تحریر کیا اور یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی کے نام تحریر کیا گیا۔ اس میں طے پانے والی تمام دو طرفہ سیریز کے انعقاد کو دونوں ملکوں کی حکومتوں کی اجازت سے مشروط نہیں کیا گیا تھا۔
اس معاہدے کی رو سے دسمبر 2015 سے نومبر/ دسمبر 2022 کے دوران دونوں ملکوں میں چھ دو طرفہ سیریز کھیلی جانی تھیں۔ اس کے علاوہ معاہدے میں لکھا گیا تھا کہ بھارت نومبر 2014 میں بھی محدود اوورز کے میچوں کی سیریز کیلئے پاکستان کا دورہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس معاہدے میں یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ اس کے مؤثر ہونے کی بنیاد اس بات پر ہوگی کہ بگ تھری یعنی بھارت، انگلستان اور آسٹریلیا کے درمیان آئی سی سی کی تشکیل نو کا معاہدہ اُس سال جون تک طے کر لیا جائے گا اور یہ شرط باقاعدہ طور پر پوری ہو گئی تھی۔
تاہم نومبر 2014 اور دسمبر 2015 کی دو طرفہ سیریز بھارت کی طرف سے انکار کے بعد ممکن نہ ہو پائیں اور اب پاکستان نے ہرجانے کیلئے بھارت کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کر رکھی ہے۔ یہ مقدمہ ابھی باضابطہ طور پر شروع نہیں ہو سکا ہے۔ ضابطوں کے مطابق یہ مقدمہ آئی سی سی کی تنازعات کے حل سے متعلق کمیٹی میں پیش ہونا تھا۔ تاہم آکلینڈ کے اجلاس کے دوران اس کمیٹی کے ٹرمز آف ریفرینس میں تبدیلی ہونے کے باعث پاکستان کی طرف سے یہ مقدمہ دائر کرنے میں کچھ تاخیر ہو گئی ہے۔ پاکستان جونہی کمیٹی کو نوٹس بھیجے گا تو کمیٹی فوراً ایجوڈی کیٹرز کا ایک پینل تشکیل دے گی جو پھر بھارت سے جواب طلب کرے گی۔ یوں اس مقدمے کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ یوں یہ بات بھی غیر یقینی ہے کہ کرکٹ لیگ کے شیڈول کی مجوزہ منظوری پر اس کے حقیقی طور پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔
اگر ٹیسٹ کرکٹ لیگ کا انعقاد ہوتا ہے تو اُس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کے مطابق باقی تین دوروں پر مشتمل 24 میچ بھی شامل کرنے ہوں گے۔ ان میں سے 9 میچ 2019 میں، 10 میچ 2020 میں اور 5 نومبر/دسمبر 2022 میں کھیلے جانے ہیں۔
آکلینڈ میں ہونے والے آئی سی سی کے اجلاس میں 9 ٹیموں پر مشتمل دو سال پر محیط ٹیسٹ لیگ اور 13 ٹیموں کی ون ڈے لیگ کی منظوری دی گئی۔ تاہم اس اجلاس میں ٹیسٹ لیگ کے شیڈول پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ توقع ہے کہ یہ شیڈول جنوری تک طے ہو جائے گا اور اسے حتمی منظوری کیلئے فروری میں ہونے والے آئی سی سی کی بورڈ میٹنگ میں پیش کیا جائے گا۔
آکلینڈ اجلاس کے دوران پاکستان کرکٹ بورد نے واضح کیا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ لیگ کو قبول کر لے گا اگر اُس میں بھارت کے خلاف وہ 24 میچ بھی شامل ہوں جن کی میزبانی سمجھوتے کے مطابق پاکستان کو سونپی گئی تھی۔ پاکستانی مؤقف پر اگرچہ کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا تھا، تاہم اسے نوٹ کر لیا گیا تھا۔