پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان بیس دسمبر سے شروع ہونے والی سیریز کیلئے قومی ٹیم کا تربیتی کیمپ لاہور میں شروع ہو چکا ہے تاہم ملک کے نو مایہ ناز کھلاڑی مختلف معاملات میں الجھے ہوئے ہیں جو پاکستان کرکٹ کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ اگر چہ ٹیم منیجر انتخاب عالم نے پاکستان ٹیم کو ٹیلنٹ کے اعتبار سے دنیا کی بہترین طاقت قرار دیا ہے اور کیمپ کا مقصد فٹنس کی بہتری قرار دیا ہے تاہم ماہرین کے مطابق صرف جسمانی فٹنس ہی حریف ٹیم پر غالب آنے کے لئے کافی نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی کھلاڑیوں کا جیت کے لئے تیار ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے ۔
یہ صورتحال نہایت گھمبیر ہے کہ دنیا بھر کی ٹیمیں آ ئندہ سال انیس فروری سے شروع ہونے والے عالمی کپ کی تیاریوں میں مصروف ہیں جبکہ پاکستان کرکٹ مختلف مسائل میں الجھی ہوئی ہے ۔ دورہ انگلینڈ میں ایک جانب تو بکی مظہر مجید کے الزامات سے لگائی جانے والی آگ ابھی بھڑک ہی رہی تھی کہ پہلے یاسر حمید اور پھر ذوالقرنین کے واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ ان پے در پے ناخوشگوار واقعات سے پاکستانی کر کٹ ٹیم شدید نفسیاتی دباؤ میں نظر آ رہی ہے جس کی حالیہ مثال کپتان شاہد خان آفریدی کا بیان ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ عالمی کپ کی تیاریوں سے وہ مطمئن نہیں ۔ وہ وکٹ کیپر و بیٹسمین کامران اکمل اور آل راؤنڈر شعیب ملک کو ٹیم کا حصہ دیکھنا چاہتے ہیں جن کی عالمی کپ میں شرکت سوالیہ نشان بن گئی ہے ۔
اگر شاہد آفریدی کے بیان کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں حقیقت پسندی صاف نظر آ رہی ہے ۔ دورہ انگلینڈ کے دوران اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے والے فاسٹ بالرمحمد آصف ، محمد عامر اور بلے باز سلمان بٹ پر تاحال کوئی الزامات ثابت نہیں ہو سکے اور کسی کو بھی نہیں معلوم کہ یہ کیس کب تک چلتا رہے گا ۔ اگر چہ آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ہارون لورگاٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے بہت مشکل سے پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف ثبوت اکھٹے کیے ہیں اور اگر پھر بھی وہ ان الزامات سے بری ہوتے ہیں تو انہیں افسوس ہو گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئی سی سی کے پاس اب ثبوت آ چکے ہیں اور آئی سی سی کو یقین ہے کہ معطل کھلاڑیوں پرالزامات ثابت ہو جائیں گے ۔
ماہرین کا کا کہنا ہے کہ ہارون لورگاٹ کا یہ بیان معطل کرکٹرز کے کیس پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور دونوں صورتوں میں وہ کرکٹ کے سنجیدہ حلقوں میں تنقید کی زد میں آ سکتے ہیں ۔ اگر تو معطل کرکٹرز کو سزا ہو جاتی ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہارون لورگاٹ نے بیان کے ذریعے کیس کی سماعت کرنے والے اراکین پر سزا دینے کے لئے دباؤ ڈالا تھا، دوسری صورت میں اگر کرکٹرز بے گناہ ثابت ہوتے ہیں تو بھی آئی سی سی کی انکوائری کمیٹی پر سوالیہ نشانات اٹھیں گے اور کہا جا سکتا ہے کہ وہ ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ اس بیان کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم پاکستانی کرکٹ پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔
ادھر بدھ کو اوپنر عمران فرحت نے مظہر مجید کو اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے سے متعلق بیان پر قانونی نوٹس بھجوا دیا ہے جس کی وصولی کی رپورٹ جمعرات کو موصول ہو جائے گی ۔ اس کے علاوہ کامران اکمل، عمر اکمل اوروہاب ریاض بھی مظہر مجید کو نوٹس بھجوانے کیلئے قانونی ماہرین سے رابطے میں ہیں ۔
یاد رہے کہ مظہر مجید نے سلمان بٹ، محمد آصف، محمد عامر، عمران فرحت، کامران اکمل، عمراکمل اوروہاب ریاض پر اسپاٹ فکسنگ کے الزامات عائد کیے تھے ۔ اس صورتحال سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ ایک ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں میں سے سات کھلاڑی نکال دیئے جائیں تو اس کی کارکردگی کیا ہو گی ؟
دوسری جانب آٹھ نومبر کو دورہ دبئی کے دوران ٹیم کو چھوڑ کر اچانک لندن روانہ ہونے والے وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر بھی ایک مہینے سے نت نئے بیانات سے توجہ حاصل کر رہے ہیں ۔ دبئی سے لندن روانگی سے قبل ہونے والے میچ میں انہوں نے شاندار کارکردگی سے ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کے اس کارنامے پر میڈیا اور عوام ان کا ساتھ دے رہے تھے اور ایک امید کی کرن بھی نمودار ہوئی تھی کہ شاید میچ فکسنگ جیسے گھناؤنے فعل میں ملوث کچھ پردہ نشینوں کے نام سامنے آ جائیں گے لیکن اب یہ امیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں ۔
ذوالقرنین کی پراسرار طور پر لندن روانگی کو آج ایک مہینہ گزر چکا ہے تاہم وہ ابھی تک یہی کہتے نظر آ رہے ہیں کہ آئندہ چنددنوں میں وہ اہم راز افشا کرنے جا رہے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا نہیں کر رہے اور ان کی جانب سے دی گئی تاریخ انتظار میں ہی گزر جاتی ہے۔ آخری مرتبہ چار دسمبر کو انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ دو روز کے اندر اہم حقائق قوم کے سامنے لانے والے ہیں لیکن چھ تاریخ بھی گزر گئی اور آج آٹھ دسمبر کو بھی کچرا قالین کے نیچے ہی دبا ہوا ہے ۔
ذوالقرنین کی صورتحال پر کرکٹ کے مختلف حلقے بھی دو حصوں میں بٹ چکے ہیں اور ایک نئی بحث جاری ہے ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ذوالقرنین اپنی جان اور اہل خانہ کی جان بچانے کیلئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ اگر وہ کچھ بتاتے ہیں تو انہیں خطرہ ہو سکتا ہے جس کی ایک مثال جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ہنسی کرونی تھے ۔ تاہم دوسری جانب خیال ہے کہ ذوالقرنین حیدر یہ سب کچھ صرف اور صرف لندن میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کیلئے کر رہے ہیں ۔ اگر ان کے پاس کچھ رازہوتے تو وہ افشا کر دیتے، اگر انہیں اپنی جان پیاری تھی تو پھر وہ لندن ہی کیوں گئے، دبئی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کر سکتے تھے ۔ اس کے علاوہ اگر انہیں اپنے خاندان کی جان کا اتنا ہی خطرہ تھا تو وہ اپنے ملک آ جاتے اور یہاں کی پولیس سے مدد مانگتے ۔ خیر یہ سب گتھی تو آنے والا وقت ہی سلجھائے گا مگر اس تمام تر صورتحال پاکستان میں کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔
ادھر ٹیسٹ اوپنر یاسر حمید نے بھی انگلش جریدے نیوز آف دی ورلڈ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیلئے کمر کس لی ہے اور عمر خیام ایڈووکیٹ کی خدمات حاصل کر لی ہیں ۔ یاد رہے کہ اس جریدے نے یاسر حمید کی آف دی ریکارڈ گفتگو افشا کی جس میں انہوں نے اپنے ساتھی کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کے الزامات عائد کیے تھے ۔اس بیان کے بعد یاسر حمید کے لئے بھی پاکستانی کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے تھے ۔
اس تمام تر صورتحال میں اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی کرکٹ اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے تو بے جا نہ ہو گا لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حالات سے نکلنے کے لئے اور عالمی کپ میں کامیابی کے لئے کپتان کو اعتماد میں لیکر فیصلے کیے جائیں اور کھلاڑیوں کے مقدمات کے جلد فیصلوں کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور کھلاڑی ذہنی پریشانیوں سے نکل کر کھیل پر متوجہ ہو سکیں ۔