بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تین مبینہ شدت پسندوں کی ہلاکت کے بعد صورتِ حال ایک بار پھر کشیدہ ہوگئی ہے۔ کئی مقامات پر لوگوں نے مظاہرے کئے- حفاظتی دستوں نے مظاہرین پر آنسو گیس چھوڑی جس کے ساتھ ہی طرفین کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی تدفین میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور بھارت سے آزادی کے مطالبے کے حق میں نعرے لگائے۔
کشیدگی کے پیشِ نظر شورش زدہ ریاست کے گرمائی صدر مقام سرینگر کے بیشتر علاقوں میں کرفیو لگا دیا گیا تھا جب کہ سرینگر ضلعے کے تمام تعلیمی ادارے بند کردئے گئے ۔
پوری وادی کشمیر میں بورڈ اور یونیورسٹی کی سطح پر پیر کو لیے جانے والے تمام امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے ہیں اور انٹرنیٹ سروسز کو بھی محدود کردیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات مظاہروں اور تشدد کے خدشے کے پیشِ نظر اُٹھائے گئے ہیں۔
اتوار اور پیر کی درمیانی شب جنوبی ضلعے اننت ناگ میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والی ایک جھڑپ کے دوران تین مبینہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی خبر پھیلنے کے بعد مسلم اکثریتی وادی میں صورتِ حال ایک بار پھر کشیدہ ہوگئی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ ہاکورہ کے علاقے میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کا تعلق غالباً ایک بڑی مقامی عسکری تنظیم سے ہے جس کا نام تاحال ظاہر نہیں کیا گیا۔
حکام کے مطابق دو شدت پسندوں کی شناخت عیسیٰ فاضلی اور سید اویس کے طور پر ہوئی ہے جبکہ تیسرے نوجوان کی شناخت کرائی جارہی ہے۔
تینوں مبینہ عسکریت پسندوں کی ایسی فائل تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں جن میں انہیں مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم شدت پسند تنظیم 'دولتِ اسلامیہ' (داعش ) کی ٹی شرٹس پہنے دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک تصویر میں عیسیٰ فاضلی 'اے کے 47' بندوق کے ساتھ داعش کے ایک بینر کے قریب کھڑا ہے جب کہ اس تصویر میں اُس نے داعش کی ٹی شرٹ بھی پہن رکھی ہے۔
تصویر کے عنوان میں اس کا تعارف عیسیٰ روح اللہ خطاب الکشمیری کے طور پر کیا گیا ہے جب کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی دیگر پوسٹس میں عیسیٰ کے ساتھیوں کو ابوذر الھندی اور ابو براہ الکشمیری کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔
کشمیر پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں میں سے ایک سرینگر کے صورہ علاقے میں ایک پولیس چوکی پر حال ہی میں کیے جانے والے حملے میں ملوث تھا۔
چھبیس فروری کو کیے جانے والے اس حملے کی ذمہ داری 'داعش' نے قبول کی تھی۔ داعش کے بیان میں کہا گیا تھا کہ "جنگ چھڑ چکی ہے۔"
کشمیر میں داعش کے سرگرم ہونے کی خبریں اور دعوے اس سے قبل بھی منظرِ عام پر آتے رہے ہیں لیکن حکام کا موقف ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ داعش وادی میں کوئی بڑی اور مؤثر قوت ہے۔
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ بعض عسکریت پسند انفرادی طور پر تو داعش سے متاثر ہوسکتے ہیں لیکن شدت پسند تنظیم کے باقاعدہ منظم نیٹ ورک کی موجودگی کے قابلِ بھروسا شواہد دستیاب نہیں۔
اتوار اور پیر کی درمیانی شب پیش آنے والے واقعے کے بارے میں پولیس نے بتایا ہے کہ ہاکورہ میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاع ملنے پر سکیورٹی دستوں نے علاقے میں آپریشن کیا تھا جس کے دوران اہلکاروں کے ساتھ ہونے والی جھڑپ میں تینوں عسکریت پسند مارے گئے۔
ایک اعلیٰ پولیس افسر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر کہا ہے کہ اگر ہاکورہ میں مارے جانے والے افراد کا تعلق واقعی دولتِ اسلامیہ سے ہے تو یہ کشمیر میں پیش آنے والا اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ ہے جس میں سکیورٹی اداروں نے داعش کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے۔
ہلاک ہونے والے عسکریت پسند عیسیٰ کے والد نعیم فاضلی ایک کالج کے پرنسپل ہیں اور انہوں نے اپنی فیس بُک ٹائم لائن پر لکھا ہے، "باوثوق ذرائع سے پتا چلا ہے کہ میرا بیٹا عیسیٰ فاضلی جنت سدھار گیا۔ انا لله وانا اليه راجعون۔"
فاضلی خاندان کے ذرائع نے بتایا ہے کہ عیسیٰ کشمیر کی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں بی ٹیک کا طالب علم تھا اور چند ماہ قبل اچانک لاپتا ہوگیا تھا۔ بعد میں اہلِ خانہ کو پتا چلا تھا کہ وہ عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہوگیا ہے جس پر اُس کے والد نے سوشل میڈیا کے ذریعے اُسے واپس گھر لوٹنے پر آمادہ کرنے کی ناکام کوشش بھی کی تھی۔ پیر کو یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم وادئ کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور طالبات نے کلاسوں کا بائیکاٹ کیا اور پھر عیسیٰ فاضلی کے حق میں دعائیہ مجلس منعقد کی۔
اس دوران جنوبی ضلع پلوامہ میں واقع بھارتی فوج کے ایک ٹھکانے کے باہر پیر کو ہوئے ایک پُر اسرار دھماکے میں ایک چرواہا جس کی شناخت عاشق چوپان کے طور پر کی گئی ہے ہلاک ہوگیا۔