کراچی —
’’بھائی جان ’وار‘ کا ڈی وی ڈی لیتے آنا (پائریٹ بھی چلے گا) میں پہاڑ گنج سے پک کر لوں گا آپ کو۔۔ آپ کو رب کا واسطہ بھول مت جانا“۔۔۔یہ وہ ٹوئٹ ہے جو ایک بھارتی شہری راہول سونک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھی ہے۔
’ٹوئٹر‘ پر ایسی اور بھی بہت سی ٹوئٹس ہیں جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی سینما کی تاریخ بدل دینے والی فلم ’وار‘ کے چرچے سرحدوں سے نکل کر پڑوسی ملک بھارت میں بھی عام ہوگئے ہیں۔
بالی وُوڈ کے نامور ڈائریکٹر رام گوپال ورما کی ٹوئٹ نے تو بھارتی شہریوں کی بے تابی میں اور بھی زیادہ اضافہ کردیا ہے۔ وہ ہر حال میں ’وار‘ دیکھنے کے منتظر ہیں۔
وام گوپال ورما نے ٹوئٹ کیا ہے، ’’میں نے وار دیکھی ہے۔ بھارتی فلم میکرز کو چاہئے کہ وہ اپنی برتری کے احساس سے نکل کر پاکستانی فلم ’وار‘ دیکھیں‘‘۔
اس میں اب کوئی شک نہیں رہ گیا کہ پچھلے مہینے ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ’وار‘ نے باکس آفس پر بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے میگا ہٹ بھارتی فلموں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
کہانی اور کردار
فلم ’وار‘ کی کہانی اُن فوجی جوانوں اور پولیس اہلکاروں کے گرد گھومتی ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے گمنام ہیروز ہیں اور امن کے دشمنوں سے جنگ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے سے بھی نہیں چُوکتے۔ پاکستانی سینما کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی فلم میں فوج اور پولیس کے زیر ِاستعمال اصلی اور حقیقی اسلحہ دکھایا گیا ہے جس کے لئے پاکستان آرمی اور پولیس فورس نے بھرپور تعاون کیا۔
اس کے علاوہ کہانی کو حقیقت سے بالکل قریب کرنے کے لئے ’وار‘ کی ٹیم نے بہت زیادہ تحقیق کی ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر ایکشن اور مصنف ڈاکٹر حسن رانا کے مطابق، ’ہمارے گمنام۔۔ مگر حقیقی ہیروز کس بہادری اور ہمت کے ساتھ ملک کے دشمنوں، خاص کردہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اس کا صحیح اندازہ فلم دیکھ کر ہی ہو سکتا ہے‘۔
انتہائی جدید اور حقیقی ہتھیار
حسن رانا نے ’ٹریبون‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں دلچسپ انکشاف کیا کہ اُنہیں اور اُن کی ٹیم کو فلم میں دکھائے جانے والے ہتھیاروں کے انتخاب میں ایک سال کا طویل عرصہ لگا۔
حسن رانا کا کہنا ہے،’یہ وہی ہتھیار ہیں جو زیادہ تر سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے استعمال میں رہتے ہیں۔ اس فلم میں پہلی مرتبہ حقیقی گن شپ اور ایم آئی 17ہیلی کوپٹرز اسکرین پر اڑتے ہوئے دکھائے گئے ہیں، وہ بھی اس انداز میں کہ دیکھنے والے ان کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔
حسن رانا کا مزید کہنا تھا، ’فلم میں ہتھیار بھی جنگی مناظر کے ساتھ تبدیل کر کرکے دکھائے جاتے رہے ہیں جیسے کلوز کوارٹر بیٹل اور ہوسٹیج ریسکیو ٹیکٹکس کیلئے الگ الگ ہتھیار استعمال ہوتے ہیں لہذا ہم نے فلم میں بھی اسی لحاظ سے ہتھیار بدل بدل کردکھائے ہیں۔ ان ہتھیاروں کی فہرست بہت طویل ہے۔ سوچیں اور اندازہ لگائیں کہ جن ہتھیاروں اور آلات کے انتخاب میں ایک سال لگا ہو وہ کس قدر جدید اور حقیقی ہوں گے۔ پھر ان کے استعمال کے لئے باقاعدہ ایک ماحول بنانا بھی بہت مہنگا اور محنت طلب تھا لیکن ہم نے یہ کام بخوبی انجام دیا‘۔
’ٹوئٹر‘ پر ایسی اور بھی بہت سی ٹوئٹس ہیں جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی سینما کی تاریخ بدل دینے والی فلم ’وار‘ کے چرچے سرحدوں سے نکل کر پڑوسی ملک بھارت میں بھی عام ہوگئے ہیں۔
بالی وُوڈ کے نامور ڈائریکٹر رام گوپال ورما کی ٹوئٹ نے تو بھارتی شہریوں کی بے تابی میں اور بھی زیادہ اضافہ کردیا ہے۔ وہ ہر حال میں ’وار‘ دیکھنے کے منتظر ہیں۔
وام گوپال ورما نے ٹوئٹ کیا ہے، ’’میں نے وار دیکھی ہے۔ بھارتی فلم میکرز کو چاہئے کہ وہ اپنی برتری کے احساس سے نکل کر پاکستانی فلم ’وار‘ دیکھیں‘‘۔
اس میں اب کوئی شک نہیں رہ گیا کہ پچھلے مہینے ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ’وار‘ نے باکس آفس پر بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے میگا ہٹ بھارتی فلموں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
کہانی اور کردار
فلم ’وار‘ کی کہانی اُن فوجی جوانوں اور پولیس اہلکاروں کے گرد گھومتی ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے گمنام ہیروز ہیں اور امن کے دشمنوں سے جنگ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے سے بھی نہیں چُوکتے۔ پاکستانی سینما کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی فلم میں فوج اور پولیس کے زیر ِاستعمال اصلی اور حقیقی اسلحہ دکھایا گیا ہے جس کے لئے پاکستان آرمی اور پولیس فورس نے بھرپور تعاون کیا۔
اس کے علاوہ کہانی کو حقیقت سے بالکل قریب کرنے کے لئے ’وار‘ کی ٹیم نے بہت زیادہ تحقیق کی ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر ایکشن اور مصنف ڈاکٹر حسن رانا کے مطابق، ’ہمارے گمنام۔۔ مگر حقیقی ہیروز کس بہادری اور ہمت کے ساتھ ملک کے دشمنوں، خاص کردہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اس کا صحیح اندازہ فلم دیکھ کر ہی ہو سکتا ہے‘۔
انتہائی جدید اور حقیقی ہتھیار
حسن رانا نے ’ٹریبون‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں دلچسپ انکشاف کیا کہ اُنہیں اور اُن کی ٹیم کو فلم میں دکھائے جانے والے ہتھیاروں کے انتخاب میں ایک سال کا طویل عرصہ لگا۔
حسن رانا کا کہنا ہے،’یہ وہی ہتھیار ہیں جو زیادہ تر سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے استعمال میں رہتے ہیں۔ اس فلم میں پہلی مرتبہ حقیقی گن شپ اور ایم آئی 17ہیلی کوپٹرز اسکرین پر اڑتے ہوئے دکھائے گئے ہیں، وہ بھی اس انداز میں کہ دیکھنے والے ان کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔
حسن رانا کا مزید کہنا تھا، ’فلم میں ہتھیار بھی جنگی مناظر کے ساتھ تبدیل کر کرکے دکھائے جاتے رہے ہیں جیسے کلوز کوارٹر بیٹل اور ہوسٹیج ریسکیو ٹیکٹکس کیلئے الگ الگ ہتھیار استعمال ہوتے ہیں لہذا ہم نے فلم میں بھی اسی لحاظ سے ہتھیار بدل بدل کردکھائے ہیں۔ ان ہتھیاروں کی فہرست بہت طویل ہے۔ سوچیں اور اندازہ لگائیں کہ جن ہتھیاروں اور آلات کے انتخاب میں ایک سال لگا ہو وہ کس قدر جدید اور حقیقی ہوں گے۔ پھر ان کے استعمال کے لئے باقاعدہ ایک ماحول بنانا بھی بہت مہنگا اور محنت طلب تھا لیکن ہم نے یہ کام بخوبی انجام دیا‘۔