پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی مرکز کراچی میں گزشتہ دنوں اپنی نوعیت کے ایک منفرد عجائب گھر کا افتتاح ہوا ہے جس کا موضوع دنیا اور بالخصوص پاکستان کی مالیاتی تاریخ ہے۔
ملک کے مرکزی بینک 'اسٹیٹ بینک آف پاکستان' کی جانب سے قائم کردہ اس میوزیم میں دنیا میں لین دین کے رائج مختلف طریقوں، تاریخ کے مختلف ادوار میں دنیا کے مختلف علاقوں میں استعمال ہونے والے سکوں، پاکستان کی کرنسی، سکوں کی ڈھلائی اور نوٹوں کی چھپائی کے مختلف طریقہ کاراور اسٹیٹ بینک کی 64 سالہ تاریخ کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
کراچی میں واقع اسٹیٹ بینک کی سابقہ اور تاریخی عمارت میں قائم کردہ اس میوزیم کا حسنِ انتظام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جدید و قدیم کے خوب صورت امتزاج کے حامل اس عجائب گھر میں جہاں نہ صرف پاکستان کی مالیاتی تاریخ محفوظ کردی گئی ہے، بلکہ یہ میوزیم دنیا میں مالیاتی نظام کی بتدریج ترقی کی داستان بھی سناتا نظر آتا ہے۔
عجائب گھر مرکزی ہال کے علاوہ کل آٹھ گیلریوں پر مشتمل ہے جبکہ یہاں ایک منی تھیٹر بھی قائم کیا گیا ہے جس میں سکوں کی تیاری، کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے طریقہ کار اور اسٹیٹ بینک کی تاریخ سمیت کئی دیگر موضوعات پر یہاں آنے والے افراد کی رہنمائی کے لیے صوتی و بصری مواد موجود ہے۔
میوزیم کی ڈائریکٹر ڈاکٹر اسماء ابراہیم ہیں جو ایک ماہر آثارِ قدیمہ ہونے کے ساتھ ساتھ سِکّوں کی تاریخ پر ڈاکٹریٹ کی حامل ہیں۔
ڈاکٹر اسماء نے 2007ء میں اس عجائب گھر کی تعمیر کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کام کا بیڑہ اٹھایا تھا اور انہوں نے اور ان کی ٹیم نے گزشتہ پانچ برسوں کی محنت کے بعد اسٹیٹ بینک کی پرانی اور خستہ حال عمارت کو ایک خوبصورت اور' اسٹیٹ آف دی آرٹ' عجائب گھر میں تبدیل کرڈالا ہے۔
ڈاکٹر اسماء کے بقول انہیں جب یہ ذمہ داری سونپی گئی تو انہیں اس عمارت کی میوزیم میں تبدیلی، مختلف افراد اور اداروں سے قدیمی سکوں اور دیگر اشیاء کے حصول اور اسٹیٹ بینک کے آرکائیوز میں موجود تاریخی اشیاء کو نمائش کے لیے تیار کرنا جیسے چیلنجز درپیش تھے جن سے وہ اور ان کی ٹیم بخوبی نبرد آزما ہوئے اور ان کی محنت کا ثمر آج اس عجائب گھر کی صورت میں موجود ہے۔
عجائب گھر میں سکِّوں کی دو علیحدہ علیحدہ گیلریاں قائم کی گئی ہیں جن میں سے ایک گیلری زمانہ قبل از اسلام کی ہے جس میں 2500ء قبلِ مسیح سے 800ء عیسوی تک کے سکے اور دیگر مالیاتی اوزان نمائش کے لیے رکھے گئے۔ یہاں سکندرِ اعظم کے دور کے سکّے بھی موجود ہیں۔
دوسری گیلری میں موجود سکے مختلف عباسی و اموی خلفاء، دیگر مسلم عرب حکمرانوں اور برِصغیر اور افغانستان کے مسلم بادشاہوں، ریاستوں، ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر پاکستان میں ڈھلنے والے سکوں پر مشتمل ہے۔ اس گیلری میں سکوں کی تیاری کے مختلف مراحل کی عکاسی بھی کی گئی ہے جبکہ یہاں برٹش انڈیا اور پاکستان کے اعلیٰ سول و فوجی اعزازات بھی نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔
عجائب گھر میں موجود ایک گیلری پاکستان میں مختلف ادووار میں جاری کیے گئے کرنسی نوٹوں کے لیے مخصوص ہے جہاں دنیا میں کرنسی نوٹوں کے ارتقاء کی تاریخ بھی محفوظ کی گئی ہے۔ اس گیلری میں برطانوی ہند اور دیگر خطوں کے کرنسی نوٹ بھی موجود ہیں۔
ایک گیلری اسٹیٹ بینک کے سابق گورنروں کے نام سے منسوب ہے جسے ملک کے مرکزی بینک کے 1948 سے لے کر 2010ء تک رہنے والے 16 سابق گورنرز کی تصاویر، ان کے شخصی خاکوں اور ان کے دورکے اہم مواقع کی تصاویر سے مزین کیا گیا ہے۔ اس گیلری میں اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر زاہد حسین کے زیرِاستعمال رہنے والا دفتری فرنیچر اور ٹیلی فون بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
عجائب گھر کی ایک اور گیلری 'اسٹیٹ بینک' کی 63 سالہ تاریخ بیان کرتی ہے جہاں ملک کے مرکزی بینک کے قیام، اس کے ارتقاء اور اس کی تاریخ کے اہم مواقع سے متعلق تصاویر اور دستاویزات نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ یہاں اسٹیٹ بینک کا پہلا کھاتہ رجسٹر اور بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کا دستخط شدہ پہلا چیک اور اکائونٹ اوپننگ فارم بھی موجود ہے۔
میوزیم میں قائم ایک خصوصی گیلری کو پاکستان میں گزشتہ 64 برسوں میں شائع کیے جانے والے ڈاک ٹکٹوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے جہاں خصوصی مواقع پر جاری کیے جانے والے کئی اہم اور یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی موجود ہیں۔
میوزیم کی ایک گیلری کو ملک کے معروف مصور اور خطاط صادقین کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جہاں ان کے وہ چار فن پارے موجود ہیں جنہیں صادقین نے 60ء کی دہائی میں اسٹیٹ بینک کی فرمائش پر بینک کی عمارت میں ہی تخلیق کیا تھا۔ ان فن پاروں میں صادقین کا شہرہ آفاق 'ٹریژرز آف ٹائم' نامی 60فٹ طویل اور 8 فٹ بلند وہ میورل بھی شامل ہے جس پر تاریخِ عالم کے عظیم ترین فلسفیوں اور سائنسدانوں کی شبیہیں بنائی گئی ہیں۔
میوزیم میں ایک آرٹ گیلری بھی قائم کی گئی ہے جہاں نوجوان مصوروں کے فن پاروں کی نمائش کا اہتمام ہے۔
عجائب گھر میں کئی دیگر اہم اور دلچسپ چیزیں بھی نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں جن میں 1988ء میں نصب کی جانے والی پاکستان کی پہلی اے ٹی ایم مشین، سادہ کاغذ کو کرنسی نوٹ میں تبدیل کرنے والا اسٹیٹ بینک کا پہلا چھاپہ خانہ، سکے ڈھالنے کی قدیم مشین اور کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے لیے استعمال کی جانے والی نِکل کی پلیٹیں شامل ہیں۔
عجائب گھر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر اسماء ابراہیم اپنی اس کاوش کی پذیرائی پر بہت خوش ہیں۔ افتتاح کے بعد چند روزکے اندر اندر ہزاروں افراد اس عجائب گھر کا دورہ کرچکے ہیں اور ڈاکٹر اسماء کے بقول کئی دیگر ادارے اور انجمنیں بھی ان سے رابطہ کرکے اس طرح کے موضوعاتی عجائب گھروں کے قیام میں دلچسپی ظاہر کرچکے ہیں۔