سائبر سکیورٹی کے ایک امریکی ماہر کا کہنا ہے کہ’ عین ممکن ہے‘ کہ امریکہ اور اسرائیل اُس پچیدہ ترین کمپیوٹر وائرس کے خالق ہوں جس کا بظاہراستعمال ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات کے حصول کے لیے کیا گیا۔
ٹفینو سکیورٹی ٹیکنولوجی کے سربراہ ایرک بائرس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دنیا میں چند ہی ایسے ممالک ہیں جِن کےپاس اِس قسم کے اعلیٰ سطح کے وسائل موجود ہیں جن کی مدد سے ’فلیم‘ کی نوعیت کا وائرس تیار ہو سکتا ہو۔
اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ نےخبردی ہے کہ اسرائیلی اور امریکی سکیورٹی اداروں نے ایران کے بارے میں جوہری معلومات اکٹھی کرنے کی غرض سے یہ سائبر حملہ کیا تھا، تاکہ ایرانی نیوکلیئر پروگرام کی رفتار کو کم کیا جا سکے۔
بائرس کا کہنا ہے کہ وائرس کو کئی طرح سے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا نےخبردی ہے کہ مواصلات اور تیکنالوجی کے وزیر رضا طاقپور نے مبینہ ’ریاستی سائبر دہشت گردی‘ کے بارے میں نامعلوم ’بین الاقوامی تنظیموں‘کےپاس شکایت درج کرادی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی حکام نےکمپیوٹر وائرسز، جِن میں ’فلیم‘ بھی شامل ہے، کا الزام اسرائیل اور ’کچھ مغربی ممالک‘ پر لگایا ہے۔
اس سےقبل اِسی ماہ، ’نیو یارک ٹائمز‘ نے خبردی تھی کہ امریکی صدر براک اوباما نے نتانز پر سائبر حملے کی اجازت دی تھی، جو کہ ایران کے جوہری فیئول کی افزودگی کی ایک اہم تنصیب ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ’اسٹوکسنیٹ‘ نامی کمپیوٹر وائرس تنصیب پر کام کی رفتار کو سست کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
بائرس نے کہا ہے کہ تجزیہ رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’اسٹوکسنیٹ‘ کے مقابلے میں ’فلیم‘ وائرس ہدف پر زیادہ مؤثر طور پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مغربی اخباری اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ ’فلیم‘ کے بارے میں انکشاف اُس وقت ہوا جب مئی میں تیل کی صنعت کے خلاف سائبر حملوں کا پتا چلا۔ کچھ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ یہ وائرس کم ازکم پانچ سال قبل تیار کیا گیا تھا۔