علم ہیئیت کے ماہرین نے 'نیپچون' کے گرد ماحول میں بَل کھاتے ہوئے ''شوخ رنگ کے پانی کے چکر جیسے گرداب'' (ورٹیکس) کا پتا لگایا ہے۔
مئی میں 'ہَبل اسپیس ٹیلی اسکوپ' پر ہائی رزولوشن تصاویر موصول ہوئییں۔ تحقیق کاروں نے بتایا ہے کہ 'ورٹیکس' تقریباً امریکی براعظم کے رقبے کے برابر ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق، ورٹیکس 'ہائی پریشر نظام' ہے جو چمکتے ہوئے بادلوں کے ہمراہ نمودار ہوتا ہے۔
سنہ 2015 میں فلکیات دانوں نے نیپچون پر بادلوں کا پتا لگایا تھا۔ بعدازاں، ایک قریبی سیاہ مقام کی موجودگی کا اعلان کیا گیا تھا۔ مئی 2016ء میں موصول ہونے والی تصاویر میں ورٹیکس کی موجودگی کی تصدیق کی گئی تھی۔
برکلے میں علم ہیئیت کے ماہر، مائیک وونگ کا تعلق 'یونیورسٹی آف کیلی فیورنیا' سے ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ''ماحول میں شوخ رنگ کے پانی کے ورطے کی طرح کے ساحل اس صورت موجود ہیں جیسے اونچے، لینس کی طرح کے گیس نما پہاڑ''۔
اُنھوں نے کہا کہ ''ساتھ ہی موجود بادل 'اوروگرافک' بادلوں کے جیسے ہیں، جو 'پین کیک' کی شکل کے ہیں، جو زمین پر پہاڑوں کی طرح ٹھہرائو کی سی ہیئیت رکھتے ہیں''۔
نیپچون پر پہلے بھی پانی کے چکر جیسے گرداب کا پتا لگنے کی بات کی جا چکی ہے۔ سنہ 1989 میں 'وائیجر 2' اسپیس کرافٹ نے بھی ایسے ہی مقام کی نشاندہی کی تھی؛ جب کہ سنہ 1994 میں ہَبل نے بھی اِس کی طرف اشارہ کیا تھا۔
علم ہیئیت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بھنور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سائز، شکل اور استحکام کے لحاظ سے یہ صدیوں پر محیط نیا زاویہ سامنے آیا ہے، جو چوڑائی، بہائو، رفتار اور سست روی کے روپ دھار سکتا ہے''۔
مشتری پر دیکھے جانے والے طوفانوں کےبھنور کے مقابلے میں، اِن کے جنم لینے اور ختم ہونے کا دورانیہ قلیل ہوتا ہے، جو ''عشروں بعد کوئی صورت اختیار کرتے ہیں''۔
تحقیق داں کہتے ہیں کہ 'ورٹائسز' کس طرح ظہور پذیر ہوتے ہیں، اِن میں تحرک کیسے پیدا ہوتا ہے اور یہ ماحول پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں، اِس کے لیے مزید مطالعے کی ضرورت ہے۔
سورج سے نیپچون اندازاً 4.3 ارب کلومیٹر دور ہے، جب کہ اِسے سورج کے مدار کا چکر لگانے میں 165 زمینی سال کے عرصے کا دورانیہ درکار ہوتا ہے۔