افغانستان میں امریکی حملے کو نو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ صدراوباما کی انتظامیہ افغانستان اور پاکستان کے لئے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر چکی ہے۔اب جب امریکی انتظامیہ کچھ روز میں افغانستان میں اپنی فوجی حکمت عملی کا جائزہ لینے والی ہے یہاں واشنگٹن میں بہت سے ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کی حکمت عملی کتنی کامیاب ہے اور کیا یہ ٹھیک سمت جارہی ہے ۔خود اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پٹرئیس کہہ رہے ہیں کہ امریکی افواج سن 2014کے بعد بھی افغانستان میں رہ سکتی ہیں۔
گزشتہ نو سال میں امریکہ افغان جنگ میں متعدد مرتبہ اپنی حکمت عملی تبدیل کر چکا ہے ۔ صدربراک اوبامانے جب صدارت سنبھالی تو ان کی خواہش تھی کہ امریکی افواج جتنا جلد ممکن ہو وہاں سے انخلا شروع کریں۔ وہ چاہتے تھے کہ فوج سن 2011سے افغانستان سے نکلنا شروع کردے مگر گزشتہ ماہ لزبن میں نیٹو کے اجلاس میں یہ تاریخ سن 2014تک بڑھا دی گئی ۔
مگر ایک امریکی تھنک ٹینک کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے منسلک بین الاقوامی امور کے ماہر Gilles Dorronsoro نے واشنگٹن میں ایک لیکچر کے دوران کہا کہ افغان جنگ 2014میں بھی ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔انہوں نے کہا ‘اب لگتا ہے کہ انخلا کے لئے سن 2014کی تاریخ مقرر کی گئی ہے مگر یہ بھی واضح نہیں۔ اس لئے کہ امریکی فوج ایسے اشارے دے رہی ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ سن 2014کے بعد بھی لڑائی لڑسکتی ہے۔’
ماہرین کا خیال ہے کہ جنرل پٹرئیس آئیندہ ایک سال میں فوجی آپریشنز کے ذریعے طالبان کوعسکری طور پر کمزور کرکے پھر ان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہیں۔ مگر Gillesکا موقف ہے کہ امریکہ کی فوجی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوگی اس لئے کہ طالبان کمزور نہیں ہونگے۔ وہ کہتے ہیں ‘مجھے امریکہ کی موجودہ حکمت عملی کام کرتی نظر نہیں آتی۔ خاص طور پر کندھار اور ہلمند میں ھالات اچھے نہیں۔ ابھی تک ان کی فوجی کامیابی ممکن دکھائی نہیں دے رہی ۔مجھے کوئی راستہ نکلتا نظر نہیں آرہا۔ جنوبی افغانستان میں حکومت موثر نہیں اس لئے امریکی فوج کی موجودگی وہاں ضروری ہو گئی ہے۔ میرے خیال میں یہ حکمت عملی زیادہ موثر نہیں ۔’
افغان امور پر نظر رکھنے والے اکثر ماہرین متفق ہیں کہ افغانستان میں جنگ جیتنے کے لئے عسکری حکمت عملی کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی بے حد اہم ہے جس پر کچھ عرصہ پہلے تک توجہ نہیں دی گئی تھی۔ افغان صدر حامد کرزئی نے جب مفاہمت کی پالیسی اپناتے ہوئے طالبان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا تو امریکی حکام اس حکمت عملی کو قبول کرتے ہوئے دکھائی دئیے مگر کچھ شرائظ کے ساتھ۔ Gilles کہتے ہیں کہ پاکستان کی مدد کے بغیر طالبان سے بات چیت مثبت ثابت نہیں ہو گی اور اسی طرح صدر کرزئی کو طالبان کے علاوہ افغانستان کے تمام سیاسی ڈھڑوں کو مفاہمت کے عمل میں شامل کرنا ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ صرف طالبان کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنا اور دوسرے نسلی ، مذہبی اور سیاسی گروہوں خاص طور پر شمال سے تعلق رکھنے والے دھڑوں کو نظر انداز کرنا غلطی ہوگی۔ان کا خیال ہے کہ ہر ایک کو مذاکرات میں شامل ہونا چاہئیے۔ شاید رشید دوستم جیسے لوگوں کو مذاکرات سے باہر رکھنا ہی بہتر ہوگا مگر ازبک ، تاجک اور دوسرے گروہوں کو شامل ہونا چاہیے چاہے ان کے طالبان اور پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے نہ ہی کیوں نہ ہوں۔
Gillesکا موقف ہے کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں نیٹو افغانستان میں اپنی عسکری کارروائیاں بہت کم کر دے گا اوریہ جنگ زیادہ تر امریکی جنگ ہوگی جس کی وجہ سے اس کے اخراجات بھی زیادہ تر امریکہ کو ہی برداشت کرنے ہونگے ۔