رسائی کے لنکس

موصل میں ملبے کے ڈھیروں سے اب بھی لاشیں برآمد ہو رہی ہیں


موصل میں امدادی کارکن ایک لاش کو پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر لے جا رہے ہیں۔
موصل میں امدادی کارکن ایک لاش کو پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر لے جا رہے ہیں۔

داعش کے ساتھ جنگ سے تباہ حال عراقی شہر موصل میں ملبے کے ڈھیروں سے لاشیں نکالنے کا کام اب بھی جاری ہے۔

یہ شہر اب سے تقریباً چھ ماہ قبل شدید لڑائی کے بعد داعش سے خالی کرا لیا گیا تھا جس کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں ملبے کے ڈھیروں سے مرنے والوں کی لاشیں نکالنے کا کام جاری رہا۔ جیسے جیسے تباہ شدہ مکانات اور عمارتوں کا ملبہ ہٹایا جا رہا ہے، ملبے میں دبی ہوئی لاشیں بھی برآمد ہو رہی ہیں۔

مقامی شہریوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ امدادی کارکنوں نے ملبے کے ڈھیر سے ایک دس سالہ بچی کی لاش نکالی ہے۔ بچی کی لاش کے قریب ہی اُس کا ایک کھلونا خرگوش بھی پڑا ہوا تھا۔ مقامی شہریوں نے بتایا کہ یہ بچی موصل شہر کے پرانے علاقے میں داعش کے ساتھ جنگ کے دوران ماری گئی تھی۔ اس بارے میں کسی کو علم نہیں ہے کہ اس بچی کے والدین کہاں ہیں اور کیا وہ اب بھی زندہ ہیں یا نہیں۔ تاہم اُنہیں اُمید ہے کہ اگر وہ زندہ ہیں تو شاید بچی کے کھلونے کی مدد سے اُس کی شناخت کر پائیں گے۔

ایک مقامی شہری ہضیفہ عبدالقدیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُس نے اس بچی کی لاش کئی ہفتے پہلے ملبے میں دبی دیکھی تھی اور اُس نے امدادی کارکنوں کو اس بارے میں اطلاع دی جنہوں نے آ کر اسے باہر نکالا۔ اُس کا کہنا تھا کہ کسی نے بھی بچی کی گمشدگی کے بارے میں اطلاع نہیں دی تھی۔ لہذا ہو سکتا ہے کہ اُس کے والدین بھی اس لڑائی میں مارے جا چکے ہوں۔

موصل 10 لاکھ کی آبادی کے ساتھ عراق کا دوسرا بڑا شہر ہے جو 2014 میں داعش کے کنٹرول میں چلا گیا تھا جس کے بعد عراقی اور اتحادی فوجوں کی طرف سے اس شہر کو داعش سے خالی کرانے کیلئے شدید لڑائی جاری رہی جس کے نتیجے میں بہت سے افراد مارے گئے اور شہر کے بے شمار مکانات اور عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ موصل میں 9,000 سے 11,000 لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں سے 3,200 عراقی اور اتحادی افواج کے ہوائی حملوں اور توپ خانے کے حملوں سے ہلاک ہوئے۔

XS
SM
MD
LG