ہفتے کے روز بھی ترکیہ اور شام کے زلزلہ زدہ علاقوں کی عمارتوں کے ملبے تلے دبے چند افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔
پانچ روز قبل 7.8 شدت کےہولناک زلزلے نے ترکیہ اور شام کے سرحدی علاقے کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ ریسکیو سے وابستہ رضاکار اب بھی ملبے سے زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں، جب کہ زندھ بچنے کی امید دم توڑ رہی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ترکیہ اور شام میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 28،000سے تجاوز کر گئی ہے۔اقوام متحدہ کے امدادی کاموں کے ادارے کے رابطہ کار، مارٹن گرفتھس نے کہا ہے کہ ہلاکتیں دوگنا تک بڑھ سکتی ہیں۔
ہفتے کو ترک صدر رجب طیب ایردوان نے بتایا کہ ملک میں زلزلے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 21 ہزار 848 ہو گئی ہے۔ ادھر شام میں مرنے والوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے بڑھ گئی ہے۔
ترکیہ کے شمالی مشرقی صوبے سینلی ارفا میں گفتگو کرتے ہوئے ایردوان کا مزید کہنا تھا کہ ترکیہ میں زلزلے کے باعث زخمی ہونے والوں کی تعداد 80 ہزار سے زائد ہے۔ چھ فروری کو آنے والے زلزلے کو 130 گھنٹے گزر جانے کے باوجود بھی کچھ افراد کو زندہ ملبے سے نکالا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ہفتے کو ریسکیو ورکرز نے اصلاحیے شہر میں ملبے سے پانچ افراد پر مشتمل ایک خاندان کو زندہ بچا لیا۔
ریسکیو ورکرز نے سب سے پہلے ماں، بیٹی کو باہر نکالا گیا جس کے بعد ریسکیو وررکرز خاندان کے سربراہ تک پہنچے جنہوں نے اصرار کیا کہ پہلے ملبے تلے پھنسے اُن کی ایک بیٹی اور بیٹے کو نکالا جائے۔
ہفتے کو ہی ریسکیو ورکرز نے اصلاحیے میں ایک تین سالہ بچی اور اُس کے والد کو ملبے تلے سے زندہ نکال لیا۔ ریسکیو ورکرز نے صوبے ہاتے سے 132 گھنٹے بعد ایک سات سالہ بچے کو بھی نکال لیا۔
بعض ماہرین کے مطابق ملبے تلے دبے افراد ایک ہفتے یا اس سے زائد عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں، تاہم اب مزید افراد کے زندہ بچنے کی اُمید دم توڑ رہی ہے۔
بڑے پیمانے پر اموات کے باعث اجتماعی تدفین کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ترکیہ کی وزارت مذہبی اُمور سے وابستہ ایک اہلکار نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ جمعے کو انطاکیہ میں 800 افراد کی تدفین کی گئی۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اُن کا کہنا تھا کہ یہاں تین فٹ کے فاصلے سے قبروں کے لیے کھدائی کی جا رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہفتے تک یہاں دو ہزار سے زائد افراد کی تدفین کی جا چکی ہے۔
سردی کی شدت میں اضافہ
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں جہاں ریسکیو آپریشن جاری ہے تو وہیں سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ زلزلے سے متاثرہ کئی علاقوں میں درجۂ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے ہے جس کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں مشکلات بھی پیش آ رہی ہیں۔
صدر ایردوان نے اعلان کیا ہے کہ موسمِ گرما تک یونیورسٹیز کو بے گھر افراد کے لیے عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ کئی علاقوں میں اسٹیڈیمز کو بھی عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں لوگوں کو گرم کپڑے، خیمے اور خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔
شام میں لڑائی کے باعث امدادی کارروائیوں میں مشکلات
دوسری جانب شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں اور باغیوں کے کنٹرول والے علاقوں میں امداد پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ شام میں زلزلے کے باعث 53 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔