پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے پاک بھارت تنازعات کو حل کرنے کے لیے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے ساتھ ٹی وی مباحثے کی پیشکش پر بھارت کے سیاست دانوں کی جانب سے سخت ردِعمل ظاہر کیا گیا ہے۔
عمران خان نے روس کے دورے پر روانگی سے قبل روس کے سرکاری ٹیلی ویژن نیٹ ورک ’رشیا ٹوڈے‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر مذاکرات سے اختلافات دور ہو جائیں تو وہ اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ٹی وی مباحثہ کرنا پسند کریں گے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی اس پیشکش پر بھارت کی جانب سے تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم متعدد سیاست دانوں نے اس پر اپنے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر رہنما راجیو پانڈے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عمران خان کی پیشکش کو مضحکہ خیز قرار دیا اور کہا کہ دو ملکوں کے اختلافات ٹی وی ڈیبیٹ سے نہیں بلکہ سنجیدہ مذاکرات سے حل ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے جیسے عمران خان سفارت کاری کو ٹی وی ڈیبیٹ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان ایک طرف مذاکرات کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف اس ملک سے سرگرم دہشت گرد بھارت کے خلاف دہشت گردی کرتے ہیں۔ لہذا وہ کہتے ہیں کہ جب تک سرحد پار سے مبینہ دہشت گردی بند نہیں ہو گی پاکستان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔
راجیو پانڈے کے بقول جب نریندر مودی 2014 میں وزیرِ اعظم بنے تو انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو بھی مدعو کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی دہشت گردی بند نہیں ہوئی۔ پٹھان کوٹ، اڑی اور پلوامہ میں حملے کیے گئے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا ممبئی حملوں کے ذمہ دار لشکرِ طیبہ کے سربراہ حافظ سعید اور بھارت کی پارلیمنٹ پر حملے کے ذمہ دار جیشِ محمد کے چیف مولانا مسعود اظہر کو سزائے موت دی گئی؟ انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان بھارت کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو ان کے الفاظ میں "سب سے پہلے دہشت گردی کا خاتمہ ہو اور بات چیت کے لیے سازگار ماحول بنایا جائے"۔
سینئر کانگریس رہنما اور رکنِ پارلیمنٹ ششی تھرور نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ بات چیت کرنا جنگ کرنے سے بہتر ہے۔ لیکن بھارتی ٹی وی چینلز پر ہونے والے مباحثوں میں آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ بڑھا ہی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہمارے کچھ اینکرز کو ریٹنگز بڑھانے کا موقع ملے تو وہ تیسری جنگ عظیم کو ہوا دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
سینئر کانگریس رہنما منیش تیواری نے ایک ٹوئٹ میں عمران خان کی پیشکش پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اور سرحد پار دہشت گردی کا الزام دہراتے ہوئے سوال کیا کہ ٹی وی پر مباحثے سے سرحد پار کی دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ہو گا?
کانگریس رہنما ابھیشیک منو سنگھوی نے بھی پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگایا اور ٹی وی ڈیبیٹ کی پیشکش کی مذمت کی۔
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ٹی وی مباحثے سے پاکستان کو ایک اخلاقی جواز مل جائے گا۔
بھارت کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں اور پاکستان کی جانب سے ان کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کا مخالف ہے اور اس نے انسداد ِدہشت گردی کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جس کے تحت کئی دہشت گردوں کو سزائیں بھی ہوئی ہیں۔
دونوں ملکوں کے نہ رابطے ہیں اور نہ تعلق تو پھر مباحثہ کیوں؟
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار شیخ منظور احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ڈپلومیسی میں ٹی وی مباحثے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے مطابق مسائل کو حل کرنے کے لیے بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم کو مدعو کیا جاتا یا وزارتی سطح پر پہلے بات چیت ہوتی۔ اس کے بعد ہی معاملہ آگے بڑھتا۔
ان کے بقول آپریشن بالاکوٹ کے بعد گزشتہ تین برس میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے ملک میں اپنے سفارتی عملے کو کم کر دیا ہے۔ دونوں ملکوں میں نہ کسی قسم کا رابطہ ہے، نہ تجارت ہے، نہ کوئی تعلق ہے۔
ان کے مطابق حالیہ دنوں میں صرف مذہبی زیارت کے لیے ویزے دیے گئے ہیں۔ لہٰذا اس قسم کے مذاکرات کا یہ کوئی وقت بھی نہیں ہے۔ اور پھر دو ملکوں کے باہمی مسائل ٹی وی ڈیبیٹ میں حل نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس سفارت کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیچیدہ مسائل ایک دو ملاقاتوں میں حل نہیں ہوتے۔ اس کے لیے مہینوں بلکہ سالوں تک سفارت کاری کی جاتی ہے۔ خواہ براہ راست مذاکرات ہوں یا بیک چینل بات چیت ہو۔
اانہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں نے گزشتہ سال ایل او سی پر سیز فائر یا جنگ بندی کی ہ لیکن ماہرین کے مطابق اس سلسلے میں عرب ملکوں اور بالخصوص متحدہ عرب امارات نے خاص کردار ادا کیا اور تب جا کر دو سال میں پیش رفت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں میں بہتر اور دوستانہ رشتے ہونے چاہئیں۔ لیکن اس کے لیے پہلے دونوں ملکوں کو باہمی تعلقات کو معمول پر لانا ہوگا۔ اس کے بعد ملاقات کا ماحول بنانا ہوگا۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے ملک میں اپنے سفارت خانوں میں سفارتی عملہ مکمل کریں۔ دونوں ملکوں میں ہائی کمشنرز تعینات ہوں۔
انہوں نے کہا کہ البتہ حالیہ دنوں میں ایک پیش رفت ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے راستے افغانستان کے لیے 50 ہزار ٹن گندم سپلائی کی گئی۔ لیکن اس معاملے میں بھی دونوں ملکوں کو طریقۂ کار طے کرنے میں تقریباً دو ماہ لگ گئے۔
ان کے مطابق جب تک تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے اور مسائل کی نشان دہی نہیں ہو گی اس وقت تک مباحثہ کس بات پر اور کیسے ہو گا؟ ڈیبیٹ تو دور کی بات ہے مذاکرات بھی نہیں ہو سکتے۔
اہھوں نے یہ بھی کہا کہ دو ملکوں کے درمیان جب بھی تنازعات کے حل کے لیے بیک چینل ڈپلومیسی ہوتی ہے تو اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ 2016 میں پٹھان کوٹ کے ایئر فورس کے کیمپ پر دہشت گردانہ حملے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں تعطل آ گیا تھا۔ اس کے بعد جموں کے اڑی کیمپ پر حملے کے بعد رشتے مزید ابتر ہو گئے۔
پھر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ایک قافلے پر حملے کے بعد جس میں بھارت کے 40 جوان ہلاک ہوئے تھے حالات اور خراب ہو گئے۔
فروری میں بھارت کی جانب سے جیشِ محمد کے ایک تربیتی کیمپ پر فضائی کارروائی اور اس کے جواب میں پاکستانی فوج کی کارروائی کے نتیجے میں دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔
یاد رہے کہ جب بھی پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش ہوئی ہے تو بھارت نے کہا ہے کہ پاکستان پہلے دہشت گردی کا خاتمہ کرے اور بات چیت کے لیے ماحول سازگار کرے اس کے بعد ہی کوئی بات چیت ہو سکتی ہے۔دوسری طرف پاکستانی حکام بھی بھارت پر پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کرتے ہیں۔
ان حالات کے تناظر میں پاکستان کے تجزیہ کاروں کا مؤقف رہا ہے کہ بات چیت کے لیے ماحول سازگار کرنے کی ذمہ داری صرف پاکستان کی نہیں ہے بلکہ بھارت کی بھی ہے۔