وفاقی وزیر دفاع احمد مختار نے کہا ہےکہ طالبان کا مفرور لیڈر ملاعمر پاکستان میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی اُن کے ملک کو طالبان کے مفرور لیڈر کی پناہ گاہ کاعلم ہے۔
بدھ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ بالفرض ملاعمر پاکستان میں چھپا ہوا تھا تو تب بھی دومئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کے خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد وہ یقینا یہاں سے فرار ہو چکا ہوگا۔
اعلیٰ امریکی فوجی حکام نے منگل کو کانگریس کے سامنے پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششوں کے بارے میں اپنے بیانات میں اطلاعات کے مطابق یہ الزام لگایا تھا کہ ناصرف پاکستانی حکام طالبان کے مفرور لیڈر ملا عمرکی ملک میں موجودگی سے آگاہ ہیں بلکہ اُسے تلاش کرنے کی امریکہ کی درخواستوں کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کے وزیر دفاع نے امریکی حکام کے ان الزامات کی تردید کی ۔
احمد مختار نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے تشکیل دی گئی پاکستان کی موجودہ پالیسی کے بنیادی ڈھانچے میں رہتے ہوئے کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاہم اُنھوں نے اپنے اس بیان کی مزید وضاحت نہیں کی ۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ہونے والے اخراجات کی امریکہ کی طرف سے ادائیگی میں تاخیر کی تصدیق کرتے ہوئے پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ فی الحال یہ سلسلہ رکا ہوا ہے۔ پاکستان کے وزارت خزانہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے30 جون تک فوجی اخراجات کی مدد میں پچا س کروڑ ڈالرکی واجب الادا قسط کی ادائیگی روک دی گئی ہے جس کی پاکستان کواشد ضرورت ہے ۔
مقامی میڈیا کے مطابق عسکریت پسندوں کے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے گریز کرنے اور پاکستان میں سی آئی اے کے اہلکاروں کے خلاف کریک ڈاؤن امریکہ کی طرف سے اس قسط کی عدم ادائیگی کی بنیادی وجوہات ہیں ۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ اتحادی اعانت فنڈ کی مد میں امریکہ پاکستان کو تقریباً نو ارب ڈالرز ادا کر چکا ہے ۔ سفارت خانے کی ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی وزارت دفاع کی طرف سے ایک مربوط نظام کے تحت اپنے اتحادیوں کو فوجی اخراجات کی مد میں رقوم کی ادائیگی کی جاتی ہے اوریہ سلسلہ جاری ہے ۔