ریاست ورجینیا اور نیو جرسی سمیت امریکہ کی کئی ریاستوں میں گورنر اور دیگر نشستوں کے لیے منگل کے روز انتخابات ہو رہے ہیں۔ گزشتہ سال کے صدارتی انتخاب کے بعد پہلا موقع ہے جب ووٹر پولنگ بوتھ کا رخ کر رہے ہیں اور بیلٹ سے متعلق ری پبلکنز کی تجویز کردہ پابندیوں کے مطابق ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔
ریاست منی سوٹا کے سیکریٹری آف سٹیٹ سٹیو سیمن نے کہا ہے کہ یہ انتخابات الیکشن کے ذمہ دار حکام کے لیے موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ انتخابی عمل سے متعلق،بقول ان کے،غلط معلومات کا مقابلہ کریں اور ان لوگوں کے دل میں بھی جمہوریت پر بھروسہ بحال کرائیں جو گزشتہ سال کے صدارتی انتخاب سے متعلق شہبات رکھتے ہیں۔
انتخابات میں زیادہ توجہ ریاست ورجینیا اور نیوجرسی پر ہے جہاں ووٹرز گورنر اور دیگر عہدیداروں کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ باقی پورے ملک میں مئیر، سٹی کونسل سے لے کر اسکول بورڈز تک کے عہدیداروں کے لیے امیدوار انتخابی دوڑ کا حصہ ہیں۔ اسی طرح یہاں بانڈز سے متعلق اقدامات پر بھی شہریوں کی رائے لی جا رہی ہے۔ ریاست مئین، نیو یارک اور ٹیکساس اور دیگر کچھ ریاستوں میں مختلف معاملات پر بیلٹ پیپرز پر شہریوں کی رائے لی جا رہی ہے۔
بعض ووٹروں کے لیے ووٹ ڈالنے کا تجربہ گزشتہ سال کی نسبت مختلف ہو گا جب حکام نے عالمی وبا کرونا وائرس کے پیش نظر کچھ تبدیلیاں متعارف کرائی تھیں اور پولنگ سٹیشنوں پر ہجوم سے بچاو کے لیے اقدامات کیے تھے۔ بعض ریاستوں نے ان تبدیلیوں کو مستقل طور پر اپنا لیا ہے، جبکہ بعض ریاستوں نے ان تبدیلیوں کو اس مرتبہ نافذ نہیں کیا۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے متصل ریاست ورجینیا میں قانون سازوں نے پولنگ بوتھ پر نہ آنے کے خواہشمند یعنی غیر حاضر ووٹروں کے لیے پیشگی ووٹ ڈالنے کی سہولت کو کسی شرط سے آزاد کرنے کے معاملے کو مستقل کر دیا تھا۔ تاہم،غیر حاضر ووٹروں کے لیے بیلٹ پیپر پر عینی شاہد کے کالم کو بحال کیا گیا ہے، جبکہ پچھلے انتخاب میں اس کالم کو لازمی نہیں کیا گیا تھا۔
بعض ریاستوں میں ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کے لیے سخت قواعد کا سامنا ہے کیونکہ یہاں ری پبلکن اکثریت والی ان ریاستوں میں نئے قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ ان ریاستوں میں فلوریڈا اور جارجیا شامل ہیں جہاں ووٹروں کو ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے لیے شناخت سے متعلق نئے تقاضے پورے کرنا پڑ رہے ہیں۔
ری پبلکنز کا کہنا ہے کہ ان کی متعارف کردہ نئی تبدیلیوں کی سکیورٹی کو بہتر بنانے اور سال 2020ء کے انتخابات کے بعد عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ضرورت تھی۔ وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان دعووں کی تائید کرتے نظر آتے ہیں جن میں ان کا موقف تھا کہ گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات چوری کیے گئے۔ ٹرمپ اپنے اس دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی تھی۔ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے ان دعووں کو ججز اور انتخابی حکام نے مسترد کر دیا تھا۔
منگل کے انتخابات امریکہ میں الیکشن حکام کے لیے موقع ہیں کہ وہ ووٹروں کو اس بارے میں باور کرا سکیں کہ انتخابی نظام کس طرح کام کرتا ہے اور سال 2020ء کے صدارتی انتخاب سے منسلک ’مس انفارمیشن‘ کا بھی جواب دے سکیں۔