پاکستان کی ایک تہائی آبادی جہاں سیلاب کی تباہ کاریاں جھیل رہی ہے وہیں پاکستان کے بڑے شہروں میں ایک بار پھر ڈینگی کی وبا سر اُٹھا رہی ہے۔ مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی اس وبا کے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں کیسز سامنے آ رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں 11 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
کراچی میں اس وائر س سے اب تک تین ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں۔ محکمۂ صحت سندھ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وائرس سے نو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
عام طور پر صاف کھڑے پانی میں پرورش پانے والے اس مچھر کے کاٹنے سے اسلام آباد میں اب تک 500 کے لگ بھگ افراد متاثر ہو چکے ہیں جن میں سے دو افراد جان کی بازی بھی ہار چکے ہیں۔ راولپنڈی میں بھی 500 ڈینگی مریض سامنے آ چکے ہیں۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال پمز میں اب تک ڈینگی کے 100 کے لگ بھگ مریضوں کا علاج ہو چکا ہے۔
فوکل پرسن برائے انسدادِ ڈینگی ڈاکٹر شفاعت خاتون کا کہنا ہے کہ ڈینگی ہر سال زور نہیں پکڑتا، بلکہ ہر تین برس بعد اس وبا میں شدت آتی ہے۔ لیکن گزشتہ برس اور اس برس ڈینگی کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پمز میں اس وقت 50 سے زائد مریض زیرِ علاج ہیں جب کہ ہر روز 500 کے لگ بھگ ڈینگی ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔
ڈینگی وارڈز کے نگران ڈاکٹر محمد نوید کہتے ہیں کہ ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 15 سے 20 فی صد ہے جو تشویش ناک ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس بار ڈینگی کیسز میں اضافے کی وجہ سیلابی پانی بھی ہے جس کی وجہ سے سیلاب متاثرین میں مچھر دانیاں اور دیگر ضروری اشیا تقسیم کی جا رہی ہیں تاکہ اس مرض کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔
ڈاکٹر شفاعت خاتون کہتی ہیں کہ یہ بات بار بار بتانے کی ضرورت ہے کہ ڈینگی کیسے پھیلتا ہے، کیوں کہ اس سے بچنا آسان ہے اور مرض لگنے کی صورت میں مریض کو سخت تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گھر، گیراج اور باغیچوں میں کہیں بھی پانی کھڑا نہ ہونے دیں کیوں کہ یہی وہ جگہ ہے، جہاں اس مچھر کی نشونما ہوتی ہے۔ یہ مچھر صبح اور شام کے اوقات میں کاٹتا ہے، لہذٰا ان اوقات میں پودوں، کیاریوں اور کھلے مقامات کے قریب بیٹھنے سے گریز کرنا چاہیے۔
پچیس سالہ احمد علی ڈینگی کی وجہ سے پمز اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ شام کے وقت دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے کہ انہیں مچھروں نے کاٹا جس کے بعد اگلے ہی روز ان کے جسم میں درد اور شدید بخار شروع ہو گیا۔
طبی ماہرین کے مطابق ڈینگی بخار کی علامات عام بخار سے مختلف ہوتی ہیں، اس میں مریض کو تیز بخار کے ساتھ ساتھ جسم میں شدید درد جب کہ خون میں شامل پلیٹلیٹس کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے شدید تھکان محسوس کرتا ہے۔
ڈاکٹر نوید کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں سیلاب کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ بھی ہے کہ ڈینگی کے مریضوں کئ تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ سیلاب زدہ علاقوں میں رہنے والے اکثر پانی سے گھرے مقامات میں رہ رہے ہیں جہاں اس نسل کے مچھر کی افزائش بہت آسان ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر شبانہ اویس کہتی ہیں کہ صحت اٹھارویں ترمیم کے مطابق صوبائی معاملہ ضرور ہے، لیکن اس کے باوجود ڈینگی کے سدِ باب کے لیے وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت درست وقت میں اس مرض کا پھیلاؤ روکنے کے لیے صوبوں کی ہر ممکن مدد کرتی ہے، لیکن اس برس سیلاب کی وجہ سے زیادہ مسائل جنم لے رہے ہیں۔