نو عمروں اور نوجوانوں میں ڈپریشن کی وجہ بننے والے عوامل کیا خود ڈیپریشن کی نشاندہی کر سکتے ہیں؟
کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ عوامل جو نوجوانوں میں ڈپریشن کا باعث بنتے ہیں وہی عوامل اس ڈپریشن کی نشاندہی میں بھی معاون ثابت ہوں؟
جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ سمارٹ فون کا انتہائی استعمال نو عمر اور نوجوان افراد کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ نوجوان اور نو عمر جب انسٹا گرام، سنیپ چیٹ اور یو ٹیوب پر وقت صرف کرتے ہیں تو اپنے اظہار خیال کے ذریعے ایسے نشان چھوڑ جاتے ہیں جو ممکنہ طور پر ان کی ذہنی صحت کے بارے میں مخصوص علامتوں کا پتہ دیتے ہیں ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ممکنہ انتباہی علامتوں میں جو تبدیلیاں نظر آتی ہیں ان میں لکھنے کی رفتار، آواز کی کوالٹی، الفاظ کا انتخاب اور طالب علم کا سکول کی بجائے گھر پر رہنے کی ترجیح شامل ہے۔
ڈاکٹر ٹامس انسل نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے سابق سربراہ ہیں۔ یہ دنیا میں ذہنی صحت کا سب سے بڑا تحقیقی ادارہ ہے۔ ڈاکٹر انسل کے مطابق سمارٹ فون کے ایک ہزار سے زائد باو مارکرزیا ممتاز اور نمایاں خصوصیات ہیں۔ ڈاکٹر انسل سمارٹ فون سائیکیٹری موومنٹ یا نفسیاتی تحریک کے لیڈروں میں شامل ہیں۔
تحقیق کار سمارٹ فونز کے ایسے ایپس کی جانچ کر رہے ہیں جو ڈپریشن اور خود کو نقصان پہنچانے کے رجحا ن کی پیش گوئی کرنے کے لئے مصنوعی ذہانت یا اے آئی کا استعمال کرتے ہیں۔ سمارٹ فونز کو ذہنی حالت کی جانچ کرنے والے آلے کے طور پر استعمال کرنے کے لئے استعمال کنندگان سے اجازت لینا ہوتی ہے کہ اس مخصوص ایپ کو ڈاؤن لوڈ کر لیا جائے۔ اس اجازت کو کسی بھی وقت ختم کیا جا سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف اوریگان سے منسلک ماہر نفسیات نک ایلن نے ایک ایپ تیار کیا ہے جو ایسے نوجوانوں کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے جنہوں نے خود کشی کی کوشش کی ہے۔
امریکہ میں دس سے چو نتیس سال کی عمر کے افراد میں خود کشی موت کی دوسری کلیدی وجہ ہے۔ 2015 میں نو عمر لڑکوں میں خودکشی کی شرح ہر ایک لاکھ میں 14 اور لڑکیوں میں ہر ایک لاکھ میں 5 رہی۔ ایک حالیہ جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ سمارٹ فون کے استعمال میں اضافہ اس بحران میں مزید بدتری اور خرابی کا باعث بنا۔
ڈاکٹر انسل کہتے ہیں کہ ذہنی امراض میں مبتلا افراد کا علاج معالجہ عام طور پر اس وقت کیا جاتا ہے جب ان کا مرض بحرانی صورت اختیار کر لیتا ہے اور بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک ایسا طریقہ دریافت کیا جائے کہ ہم مرض کا پتہ ابتدائی علامتوں سے لگا سکیں ۔
سمارٹ ایپس تیار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر سمارٹ فونز مؤثر انداز میں علامات کا پتہ چلا سکیں تو پھر ممکنہ طور پر مقصد یہ ہو گا کہ مدد کے لئے خود کار طور پر پیغام والدین، ڈاکٹر یا پھر سب سے پہلے مدد کو آنے والوں تک پہنچ سکے۔
فیس بک نے ’پرو ایکٹو ڈی ٹیکشن‘ یعنی فعال انداز میں معلومات حاصل کرنےکے طریق کار کو استعمال کیا ہے۔ گزشتہ برس جب ایک خود کشی کے احوال کو فیس بک پر براہ راست بتایا گیا تو اس وقت ادارے نے اپنے اے آئی نظام کو اس قابل بنا دیا کہ وہ آن لائن پوسٹ کئے ہوئے مواد میں ایسے الفاظ کا پتہ چلائے جو ممکنہ طور پر خود کو نقصان پہنچانے کی پیش گوئی کرتے ہوں۔ پھر دوستوں کی طرف سے لکھے گئے الفاظ سے معلوم کرے کہ وہ استعمال کرنے والے شخص کی بھلائی کے بارے میں فکر مندی کا اظہار کر رہے ہوں اور فیس بک کا نیا طریقہ ان ساری علامتوں سے اصل صورتحال کا پتہ چلا سکے۔
فیس بک نے گزشتہ سال کے دوران فوری طور پر امداد کے لئے آنے والے عملے کو جلد از جلد 3500 افراد تک پہنچنے میں مدد کی۔ لیکن ادارے کی طرف سے ان افراد کے بارے میں مکمل معلومات نہیں دی گیئں ۔
اس سلسلے میں کئے جانے والے ایک تحقیقی جائزے میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کا تقریباً دو سو نو عمر افراد کا ایک مطالعہ بھی شامل ہے۔ ان میں سے بیشتر نو عمر افراد تنگ کئے جانے، خاندانی معاملات یا پھر دوسرے مسائل کی وجہ سے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ جو بچے اس مطالعے میں شامل تھے انہیں ایک تجرباتی فون ایپ دی گئی جو ان سے دن میں تین مرتبہ ان کے موڈ کے بارے میں سوال کرتی اور یہ عمل دو ہفتے جاری رہا۔ 15 سالہ لاریل فوسٹر اس مطالعے میں شامل ہیں۔ فوسٹر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سکول اور دوستیوں کے بارے میں دباؤ کا شکار ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ سان فرانسسکو میں ان کے سکول میں ڈپریشن عام ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سمارٹ فون ایپ ابتدا میں ایسے محسوس ہوئی جیسے کوئی ان کی جاسوسی کر رہا ہے۔ لیکن بیشتر ویب سائٹس پہلے ہی اپنے استعمال کرنے والوں کے رویوں پر نظر رکھتی ہیں۔
19 سالہ الیسا لزارگا بھی اس مشاہدے میں شامل ہیں۔ لزارگا کا کہنا ہے کہ وہ ہائی سکول سے ڈپریشن میں مبتلا ہیں اور سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے انتہائی زیادہ استعمال کے بارے میں فکرمند بھی ہیں۔ وہ کہتی کہ آن لائن دوسرے لوگوں سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے وہ افسردہ ہو جاتی ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ سمارٹ فونز کے ذریعے ذہنی صحت کے مسائل کی شناخت کرنے سے ممکن ہے کہ لوگ جلد علاج کی طرف متوجہ ہو جائیں ۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس میں تحقیق کار آن لائن مشاورت کی پیشکش کرتے ہیں اور ان طلب علموں کو تجرباتی فون ایپ بھی دیا جاتا ہے جن میں جانچ کے دوران معمولی ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی علامتیں ملتی ہیں۔ یہ یونیورسٹی کی طرف سے 2018 میں شروع کی گئی ایک کوشش کا حصہ ہے جس کا مقصد اپنے طالب علموں میں ڈپریشن کا مقابلہ کرنا ہے۔ یو سی ایل اے کے تقریبا 250 طالب علموں نے اپنے پہلے سال کے دوران اس ایپ کو استعمال کرنے کے لئے آمادگی کا اظہار کیا۔
یونیورسٹی آف الی نوائے کے شکاگو کیمپس میں اب وسیع پیمانے پر تجرباتی فون ایپ کی جانچ کی جا رہی ہے۔ تقریبا 2 ہزار افراد نے اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کیا ہے اور اس بات پر راضی ہو گئے ہیں کہ وہ تحقیق کاروں کو رویوں کی جانچ کرنے دیں ۔ ایلیکس لیو اس یونیورسٹی میں نفسیات اور بایو انجنیرنگ کے پروفیسر ہیں اور انہوں نے یہ ایپ تیار کرنے میں مدد دی ہے۔
اس جائزے میں اٹھارہ سال اور اس سے زائد عمر کے لوگ حصہ لے سکتے ہیں لیکن لیو کا کہنا ہے کہ اگر یہ تجربہ کامیاب ہو گیا تو پھر بچو ں کے لئے بھی استعمال ہو سکے گا۔
یونیورسٹیوں میں کئے جانے والے جائزوں کے علاوہ ٹیکنالوجی کے ادارے بھی اپنے تجرباتی ایپس پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں مائنڈ سٹرونگ اور ویریلی بھی شامل ہیں۔ گوگل کا ٹیک ہیلتھ کا شعبہ بھی ایسے ایپ پر کام کر رہا ہے۔