افغانستان کے دارالحکومت کابل کی ایک غریب آبادی میں تعلیم کی غرض سے چند لڑکیاں روزانہ خفیہ طور پر ایک گھر میں جمع ہوتی ہیں۔
طالبان نے اگست 2021 میں اقتدار پر قبضے کے فوری بعد لڑکیوں کے زیادہ تعلیمی ادارے بند کر دیے تھے جب کہ لاکھوں بچیوں پر چھٹی جماعت کے بعد تعلیم حاصل کرنے پابندی عائد کر دی تھی۔لگ بھگ 500 دن بعد بین الاقوامی برادری کےدباؤ کے باوجود بھی یہ ممانعت برقرار ہے۔
منگل کو عالمی برادری بین الاقوامی یوم تعلیم منا رہی ہے۔ایسے میں افغانستان وہ واحد ملک ہوگا جہاں طالبات کے اسکولوں میں تعلیم کے حصول کی ممانعت ہے۔ پڑھنے اور پڑھانے پر قدغن کو انسانی حرمت پر حملہ قرار دیتے ہوئے یونیسکو نے 2023 کو افغان لڑکیوں اور خواتین کے معاملے پر نظر رکھنے کا سال قرار دیا ہے۔
ایسے میں جب افغانستان میں بچیوں کے سرکاری اور نجی خالی پڑے ہیں، خفیہ اسکول پھیل رہے ہیں۔
امید کی ایک کرن
کابل میں یہ خفیہ اسکول آٹھ اسکولوں کے اس نیٹ ورک کا حصہ ہے جو پانچ شہروں میں پھیلا ہوا ہے۔ اسکول کی ویب سائیٹ کے مطابق، یہ اسکول 'سرک' نامی ایک تنظیم کی مدد سے چلایا جا رہا ہے، جو ایسے علاقے میں کام کر رہا ہے جہاں تعلیم پر بندش شدید متاثر کر رہی ہے۔ پشتو میں سرک کا مطلب ''صبح کی پہلی کرن'' ہے۔
پراستو، جنہوں نے سیکیورٹی کی بنا پر اپنے نام کا پہلا حصہ ظاہر کرنے کی گزارش کی ہے، اس کے بانیوں میں شامل ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کہ بتایا کہ طالبان کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے فوری بعد، انہیں اساتذہ کی جانب سے خفیہ اسکول قائم کرنے کے بارے میں ٹیلی فون کالز موصول ہوئیں۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کے وقت سے انہیں تعلیم کے شعبے کا تجربہ تھا اس لیے وہ فوری طور پر حرکت میں آ گئیں۔
ان کے بقول اسکول قائم کرنا کوئی مشکل کام نہیں، ایسے میں جب مدد کی درخواست خود خواتین اور بچوں کی جانب سے آئی ہو۔
اپنی جان پہچان والوں سے مل کر، پراستو نے جذبے والے اساتذہ اور طلبہ کے لیے تہہ خانوں، بیٹھک اور سونے کے کمروں کو اسکول بنا ڈالا ہے۔
راحیلہ ریاضی کے مضمون کی ایک سابقہ استانی ہیں۔ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر انہوں نے اپنے نام کا پہلا حصہ استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ وہ اسکول کی ایک رضاکار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب طالبان نے بچیوں کے اسکولوں کو بند کرنے کا حکم صادر کیا تو وہ سخت ذہنی الجھن کا شکار ہوئیں لیکن ان کے پڑوسیوں نے ریاضی میں انہیں مدد کی درخواست کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ''مجھے یہ احساس ہو چلا تھا کہ میں اور میرے شاگرد ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ ہم نے ایک دوسرے کو امید کا سہارا بنایا۔‘‘
بہت جلد ان کے گھر میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کی تعداد بڑھ گئی، یہاں تک کہ دستیاب جگہ کم پڑنے لگی۔
یہ وہ وقت تھا جب ان کی راحیلہ سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے کابل میں ایک بڑا کمرہ کرائے پر دلانے میں مدد کی، جہاں راحیلہ اور دو استانیاں ہر روز تین گھنٹوں تک لڑکیوں کو ریاضی، انگریزی، سائنس اور دیگر مضامین پڑھاتی ہیں۔
راحیلہ کی طالبات میں 18 برس کی کاملہ بھی شامل ہیں۔ انہیں کیمسٹری اور انگریزی کا مضمون پسند ہے۔
راحیلہ کا خواب ہے کہ وہ بڑے ہو کر وکیل بنیں۔ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی اگر نہ ہوتی تو وہ ابھی اپنا سکول ختم کر رہی ہوتیں لیکن ابھی وہ پرانی کلاسوں کی کتابیں پڑھ رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ماں کی طرح تعلیم سے محروم نہیں رہنا چاہتی اور وہ چاہتی ہیں کہ پڑھ لکھ کر ان کا مستقبل روشن ہو۔
ان اسکولوں میں ڈھائی سو کے قریب طالبات زیر تعلیم ہیں۔
ان اسکولوں میں تعلیم مفت ہے، جب کہ بہت سے خاندان تعلیم کا خرچہ برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
کابل پر قابض طالبان کی حکومت کا کہنا ہے کہ تعلیمی ماحول اور مواد ملک کی مذہبی اخلاقیات سے میل نہیں کھاتے۔ طالبان نے اس سلسلے میں بین الاقوامی دباؤ کو مسلسل مسترد کیا ہے۔
دسمبر میں طالبان نے لڑکیوں کے جامعات جانے پر بھی پابندی عائد کی ہے۔
طالبان کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر ندا محمد کا کہنا ہے کہ وہ ہر قیمت پر مذہبی قوانین نافذ کرنے کو تیار ہیں۔
راحیلہ کا کہنا ہے کہ دباؤ اور خطرے کے باوجود طالبات اور اساتذہ ان اسکولوں میں آ رہے ہیں۔
ان کے بقول ان کا سب سے بڑا اندیشہ ان کے جذبات اور خواہشات کا قتل ہے۔
طالبان سے چھپنے کے لیے لڑکیوں کو ٹولیوں میں آنے اور کتابیں چھپانے کا کہا گیا ہے۔
کاملہ کا کہنا ہے کہ وہ گھر پر اپنی کتابیں چھوڑ کر آتے ہیں اور اسکول کی کتابیں بھی سکول میں چھوڑ جاتے ہیں۔
اگرچہ تہہ خانوں میں چلنے والے یہ اسکول ملک میں بڑھ رہے ہیں لیکن یہ بات واضح نہیں کہ مستقبل میں کاملہ جیسے طالب علم اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں کیسے حاصل کریں گے۔