پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کے امن مشن کے تحت سنہ دو ہزار سات میں سوڈان گیا۔ دو سال بعد اپنے پیشہ وارانہ فرائض پورے کرنے کے بعد واپس آیا تو اقوام متحدہ کی جانب سے ملنے والی تنخواہ کے عوض میں نے ڈی ایچ اے سٹی میں چالیس لاکھ روپے کے عوض دو پلاٹوں کی فائلیں خرید لیں۔ ڈی ایچ اے سٹی میں یہ سوچ کر سرمایہ کاری کی کہ پاک فوج کی زیر نگرانی چلنے والی ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی نے پاکستان بھر میں کامیاب رہائشی اسکیمیں بنائیں ہیں۔ اپنے دونوں پلاٹوں کی تمام اقساط بھی جمع کرا دیں لیکن بعد میں پتا چلا کہ یہ تو فراڈ ہو گیا ہے۔ وائس آف امریکہ کے نمائندے کو یہ تمام باتیں نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس کے ایک سینیئر افسر نے اپنا نام ظاہر کہ کرنے کی شرط پر بتائیں۔
'میرے پاس پلاٹوں کے عوض ادا کی گئیں تمام رسیدیں موجود ہیں۔ اب میں چالیس لاکھ کے دو پلاٹ بیچنا چاہتا ہوں تو کوئی اسے چار لاکھ روپے میں بھی نہیں خریدتا۔'
ڈی ایچ اے سٹی کے متاثرین میں سے ایک اور متاثرہ شخص ملتان کے رہائشی رانا عظمت علی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنے کاروبار سے تھوڑی تھوڑی بچت کر کے سال 2010 میں اپنی بیٹی کے لیے پانچ مرلے کا پلاٹ لیا، قرعہ اندازی سے بچنے کے لیے پلاٹ کی کل قیمت کا دس فیصد اضافی رقم بھی ادا کی۔ 'ڈی ایچ اے والوں نے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات دئیے، میں نے سوچا ایک پلاٹ لے لیتا ہوں، بیٹی کو شادی پر تحفہ دے دونگا۔ آج میری بیٹی بال بچے دار ہے، تمام رقم ادا کرنے کے باوجود پلاٹ کا کچھ پتا نہیں۔ جب بھی ڈی ایچ اے والوں سے بات ہو تو کہتے ہیں معاملہ نیب کے پاس ہے'۔
ڈی ایچ اے سٹی کے نام پر رہائشی منصوبہ پاکستان کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں سنہ 2009 میں شروع کیا گیا۔ ڈی ایچ اے سٹی منصوبہ لاہور میں دو نجی تعمیراتی کمپنیوں گلوبیکو پرائیویٹ لمیٹڈ اور ایلیسئیم ہولڈنگز پاکستان لمیٹڈ نے مل کر شروع کیا۔ گلوبیکو پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک حماد ارشد اور ان کے بھائی مراد ارشد ہیں جبکہ ایلیسئیم ہولڈنگز پاکستان لمیٹڈ کے مالک میجر ریٹائرڈ کامران کیانی اور جاوید کیانی ہیں جو اس وقت کے پاکستان کے آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کے بھائی ہیں۔ منصوبے کے تحت گلوبیکو پرائیویٹ لمیٹڈ نے لاہور کے علاقے ٹھوکر نیاز بیگ کے علاقے میں ای ایم ای ہاوسنگ سوسائٹی کے قریب پچیس ہزار کنال زمین ایلیسئیم ہولڈنگز پاکستان لمیٹڈ کو فراہم کرنا تھی جہاں زمین کی تیاری کا کام جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کی کمپنی نے کرنا تھا۔ منصوبے کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی اور ڈی ایچ اے سٹی کا دفتر بھی ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی لاہور میں بنایا گیا جو تا حال موجود ہے۔
منصوبے کو اس سے قبل بننے والی ڈی ایچ اے ہاوسنگ اسکیموں کی طرز پر شروع کیا گیا، جس میں 13 ہزار عام شہریوں اور 13 ہزار فوجیوں نے سرمایہ کاری کی۔ منصوبے میں پانچ مرلے والے پلاٹ کی قیمت نو لاکھ اسی ہزار روپے، دس مرلے کے پلاٹ کی قیمت انیس لاکھ نوے ہزار روہے جبکہ ایک کنال رقبے کے پلاٹ کی قیمت اکتیس لاکھ روپے مقرر ہوئی، جنہیں سرمایہ کاری کرنے والوں کو اقساط میں ادا کرنا تھا۔ ڈی ایچ اے سٹی میں سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں نے سنہ 2010 سے اپنے پلاٹ کی اقساط ڈی ایچ اے سٹی کے اکاونٹ میں جمع کرانی شروع کیں جو سنہ 2014 میں مکمل ہو گئیں۔ منصوبے کے تحت فوجی افسروں کو پلاٹ کی منتقلی سنہ 2015 میں جبکہ عام شہریوں کو پلاٹوں کا قبضہ سنہ 2016 میں ہونا تھا۔ اقساط پوری ہونے پر سرمایہ کاری کرنے والوں نے پلاٹ کے قبضے کا مطالبہ کیا تو ڈی ایچ اے سٹی کی جانب سے حیلے بہانے شروع ہو گئے۔ ڈی ایچ اے سٹی کی جانب سے پلاٹ کے قبضے نہ دیے جانے پر مسلسل لیت ولعل سے کام لینے پر متاثرین معاملے کو عدالت میں لے گئے۔ تین سال تک عدالت میں کیس چلنے پر بھی سرمایہ کاروں کو امید کی کوئی کرن نظر نہیں آئی۔
معاملہ میڈیا میں آنے پر ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی فریق بن کر اس معاملے کو قومی احتساب بیورو میں لے گئی اور موقف اختیار کیا کہ ہاوسنگ اسکیم میں ان کا نام استعمال کیا گیا ہے جس سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ معامہ نیب میں جانے پر گلوبیکو پرائیویٹ لمیٹڈ نے یہ موقف اختیار کیا کہ انہوں نے زمین ایلیسئیم ہولڈنگز پاکستان لمیٹڈ کو فراہم کر دی ہے جبکہ اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کی کمپنی نے موقف اختیار کیا کہ انہیں محض بارہ کنال زمین وہ بھی چار مختلف ٹکڑوں میں فراہم کی گئی ہے جو منصوبے کی خلاف ورزی ہے۔
نیب کی اپنی تحقیقات کے مطابق ڈی ایچ اے سٹی کے نام پر رہائشی منصوبے کی پاکستان بھر میں ایک انچ بھی زمین نہیں ہے اور یہ منصوبہ صرف کاغذوں میں موجود ہے۔ معاملہ نیب میں آنے پر جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کے دونوں بھائی ملک سے فرار ہو گئے جبکہ حماد ارشد اور ان کے بھائی نیب کی تحویل میں ہیں۔
ڈی ایچ اے سٹی لاہور کے متاثرین میں اندرون ملک کے علاوہ سمندر پار پاکستانیوں اور سیکورٹی فورسز میں خدمات کے دوران اپنی جانیں دینے والے اہلکاروں کے ورثا نے بھی اپنی زندگی کی جمع پونجی اکٹھی کر کے اس اسکیم میں سرمایہ کاری کی تھی۔ یہ فراڈ سامنے آنے کے 4 سال گزر جانے کے باوجود متاثرین کو نہ تو نیب سے کچھ ملا نہ ہی اعلی عدالتوں سے۔ اپنی عمر بھر کی جمع پونجھی کو اپنے خوابوں کے گھر کے لیے لٹانے والے متاثرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جن کے پیاروں نے پاکستان کی خاطر اپنی زندگی دے دی، پاکستان کا نظام عدل کب انہیں انصاف دے گا۔
وائس آف امریکہ نے ڈی ایچ اے میں متعلقہ آفیسر کرنل اختر سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو نہیں دیکھ رہے اور کہا کہ وہ متعلقہ آفیسر کا نام اور نمبر فراہم کریں گے۔ لیکن انہوں نے ابھی تک یہ معلومات نہیں دیں۔ وہ او اے نے نیب میں متعلقہ آفیسر نوازش صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اگلے دن تمام معلومات کی اپ ڈیٹ لے کر بات کریں گے۔ متعدد بار کوشش کرنے کے باوجود انہوں نے اپنا فون نہیں اٹھایا۔