یہ 24 دسمبر 2011 ء کی بات ہے کہ میں ایکسپریس نیوزلاہور کے دفتر میں بیٹھی کسی خبر پر کام کر رہی تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی ۔میں نے دیکھا کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے اہم رکن کا نمبر میرے فون کی سکرین پر جھپک رہا تھا جوکوئی خاص خبر دینے کے لیے ہی فون کیا کرتا تھا۔ میں نے جھٹ سے فون اٹھایا اور سلام دعا کے بعد فوراً پوچھا کیا ہوا؟ کیا خبر ہے؟ اس کے جواب سے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور میرے منہ سے ایک ہی بات نکلی، واقعی؟ خبر کنفرم ہے؟ اس نے کہا خبر بالکل کنفرم ہے مخدوم جاوید ہاشمی کل پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کردیں گے۔ خبر چند ہی منٹوں میں تمام نیوز چینلز پر فلیش ہونے لگی کہیں ٹکر کی صورت تو کہیں بمپرز کی شکل میں ایسے جیسے کوئی افرا تفری مچ گئی پورے نیوز میڈیا میں۔ جاوید ہاشمی اس وقت شاید ایوان اقبال میں ہونے والی ایک تقریب میں موجود تھے وہاں میڈیا نے ان سے اس بریکنگ نیوز کی تصدیق بھی کرنا چاہی مگر انہوں نے چپ سادھے رکھی۔
دسمبر کی وہ ٹھٹھرتی رات ہم رپورٹرز نے مخدوم جاوید ہاشمی کے گھر کے باہر گزاری تھی۔ سو منہ سو باتیں بعض ذرائع نے بتایا کہ بیگم کلثوم نواز، مریم نواز ، خواجہ سعد رفیق اور دیگر پارٹی عہدہ داران سب کے سب مخدوم صاحب کے گھر کے اندر موجود ہیں اور ان کو پارٹی نہ چھوڑنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجال ہے کوئی درست خبر نصیب ہوئی ہو اس رات، تمام چینلز ہی اپنی اپنی ’شرلیاں‘ چلانے کی دوڑ میں لگے تھے کیونکہ ٹی وی سکرین پر یہ اس وقت کی ایسی خبر تھی جو تصدیق شدہ تو تھی مگر سب یہ خبر جاوید ہاشمی کے منہ سے سننا چاہتے تھے۔
مخدوم جاوید ہاشمی 5 جون سے ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہیں۔ ویسے تو وہ وزیر اعظم کی کرسی کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے میاں نواز شریف کے مد مقابل تھے مگر قومی اسمبلی کے معزز ایوان میں ووٹنگ سے پہلے ہی سب جانتے تھے کہ کرسی کس کی ہے؟ جاوید ہاشمی نے ایوان میں تقریر کے دوران جہاں نئی حکومت کو ملک چلانے کے لیے کچھ چیزیں باور کروائیں وہیں وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ان کے منہ سے یہ نکل گیا کہ میاں نواز شریف ان کے لیڈر تھے اور رہیں گے۔ شاید لاشعور کے کسی بند دریچہ سے اب بھی ماضی کی روشنی چھلک رہی تھی، تبھی تو پاکستان تحریک انصاف کے صدر ہونے کے باوجود ہاشمی صاحب یہ کہہ گئے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے میاں نواز شریف کو ماضی کی اپنی کچھ وفاداریاں بھی یاد دلا دیں۔
اگر انٹرنیٹ پر ابھی جا کر ان کی اس تقریر کا کلپ دیکھیں تو آپ کو جاوید ہاشمی کی تقریر اور اس پر میاں نواز شریف کا بغیر کسی تاثر سپاٹ چہرے کے ساتھ بیٹھے رہنا، آپ کو جاوید ہاشمی پر غصہ نہیں ان سے ہمدردی کا احساس دے گا۔ یہ تقریر ہونے کی دیر تھی کہ جاوید ہاشمی کا یہ بیان سیاسی حلقوں میں ان کے خلاف مختلف چہ مگویوں اور الزامات کی شکل میں سامنے آیا، کچھ نے کہا کہ جاوید ہاشمی میاں صاحب کو یہ عندیہ دینا چاہتے تھے کہ وہ انہیں پارٹی میں واپس لے لیں۔ مگر میرے خیال میں تقریر کے دوران یہ لمحہ وہ تھا جب شاید جاوید ہاشمی کو ماضی کی وہ ساری کوششیں، قربانیاں وفاداریاں یوں فلیش بیک ہوئیں کہ وہ یہ ہی بھول گئے کہ اب ان کی وفاداریاں کسی اور سیاسی جماعت کے لیے ہیں۔ جاوید ہاشمی کو تنقید کا اتنا نشانہ بنایا گیا کہ انہیں چار روز بعد ہی میڈیا کے سامنے اپنا یہ بیان واپس لینا پڑا۔
مخدوم جاوید ہاشمی 1985 ء سے پاکستان مسلم لیگ ن کا حصہ تھے، 1999 ء میں ملک میں لگنے والے مارشل لاء کے بعد جب میاں نواز شریف کو حراست میں لیا گیا تو کلثوم نواز کے علاوہ جاوید ہاشمی وہ شخص تھے جو میاں نوازشریف کے ساتھ کھڑے تھے باقی سب تو تتر بتر ہو کر اپنی اپنی جان بچانے کو بھاگ نکلے تھے۔ یہی نہیں جاوید ہاشمی نے تو اپنی جماعت کی خاطر 2003 ء میں پاک فوج کے منہ سے اپنے لیے غداری کا الزام بھی سہا اورانہیں 23 برس کی سزا سنائی گئی۔ میاں صاحب کی جلا وطنی کے دوران جیل کی کال کوٹھڑی میں اس شخص نے چار برس گزارے اور 2007 ء میں انہیں وہاں سے سپریم کورٹ کے حکم پر آزاد کیا گیا۔ جب وہ جیل سے باہر آئے تو یوں لگتا تھا کہ جیسے ان چار برسوں کے دوران وہ اپنی 23 سال کی سزا کاٹ کر آئے ہیں۔ لاغر، کمزور، ضعیف۔۔۔ بات کرنے کے قابل تک نہ بچے تھے جاوید ہاشمی۔
ایسے شخص کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت پر میاں نوازشریف کا چند سیکنڈز کا ایک بیان سامنے آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی خدا حافظ کہہ کر جاتے تو اچھا ہوتا۔ اس وقت کے وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ مخدوم جاوید ہاشمی کو چونکہ قائد حزب اختلاف یا پارلیمانی لیڈر نہیں بنایا گیا اسی لیے وہ ناراض ہیں اور پارٹی چھوڑدی۔ تو رانا صاحب کیا جاوید ہاشمی کا یہ مطالبہ غلط تھا؟ کیا ان کا باغی ہونا بلاوجہ ہے؟ اتنی قربانیوں کے بعد وہ اتنے کے حق دار تو بنتے تھے۔ مگر بات کچھ اور تھی جاوید ہاشمی جیسا شخص ظرف کا اتنا کمزور نہیں ہوسکتا کہ ان کی جماعت کو اگر یہ یاد نہیں رہا تھا کہ جماعت پر ان کا حق کئی لوگوں سے کہیں زیادہ ہے تو وہ خود اس بات کو ان کے گوش گزار کر کے ان سے عہدہ کا مطالبہ کرتے۔ درحقیقت تو میاں برادران کی جلا وطنی سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی جاوید ہاشمی کو ’کھڈے لائن‘ کر دیا گیا تھا۔ مگر وہ پھر بھی پارٹی کو اپنا خون پلاتے رہے۔
2008 ء کے انتخابات کے بعد جاوید ہاشمی پارٹی ارکان کی تنقید کا اکثر نشانہ اس لیے بنتے تھے کیونکہ وہ پارٹی میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ ویسے 2008 ء کے انتخابات سے یاد آیا کہ جاوید ہاشمی نے ان انتخابات میں پنڈی میں شیخ رشید کوہرایا، ایک سیٹ ملتان اور ایک لاہور سے جیتی، یعنی کل ملا کر تین حلقوں میں کامیابی حاصل کی اس کے باوجود وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے مشرف سے حلف لینے سے انکار کیا اور اسی لیے وہ وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی کی پارٹی چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ میاں شہباز شریف سے اختلافات بھی تھے۔ میاں صاحب نے جاوید ہاشمی سے یہ کہا کہ وہ پارٹی معاملات میں نقطہ چینیاں کرنا چھوڑ دیں اور تین حلقوں میں کامیابی کا رعب نہ ڈالا کریں، ان حلقوں سے مسلم لیگ ن کسی کو بھی کھڑا کرتی تو وہ جیت ہی جاتا۔ اور یہ بات 2010 ء میں جاوید ہاشمی پر فالج کا حملہ بن کر ٹوٹی اور ان کی زبان لکنت سے دوچار ہوئی۔
میری کسی پارٹی سے کسی قسم کی کوئی وابستگی تو نہیں ہے مگر ہاں چند گنے چنے لوگ ہیں جنہیں سیاستدان کے طور پر میں پسند کرتی ہوں۔ اُن میں سے جاوید ہاشمی بھی ایک ہیں۔ قومی اسمبلی کے معزز ایوان میں جب جاوید ہاشمی نے پہلے میاں نواز شریف کو اپنا لیڈر کہا اور پھرعمران خان (جنہیں سیاست میں آئے ابھی دو دہائیاں بھی نہیں گزریں) کو، تو دل عجیب سے سوالوں کے جال میں پھنس گیا۔ کیا سیاست میں اتنے برس گزارنے، ایمانداری اور وفاداریاں نبھانے کے بعد، ان سب سے زیادہ سیاسی تجربہ رکھنے والے جاوید ہاشمی جو خود اپنے اندر ایک لیڈر ہیں کیا انہیں دوسرے سیاستدانوں میں اپنا لیڈر تلاش کرنے کی ضرورت ہے؟
دسمبر کی وہ ٹھٹھرتی رات ہم رپورٹرز نے مخدوم جاوید ہاشمی کے گھر کے باہر گزاری تھی۔ سو منہ سو باتیں بعض ذرائع نے بتایا کہ بیگم کلثوم نواز، مریم نواز ، خواجہ سعد رفیق اور دیگر پارٹی عہدہ داران سب کے سب مخدوم صاحب کے گھر کے اندر موجود ہیں اور ان کو پارٹی نہ چھوڑنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجال ہے کوئی درست خبر نصیب ہوئی ہو اس رات، تمام چینلز ہی اپنی اپنی ’شرلیاں‘ چلانے کی دوڑ میں لگے تھے کیونکہ ٹی وی سکرین پر یہ اس وقت کی ایسی خبر تھی جو تصدیق شدہ تو تھی مگر سب یہ خبر جاوید ہاشمی کے منہ سے سننا چاہتے تھے۔
مخدوم جاوید ہاشمی 5 جون سے ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہیں۔ ویسے تو وہ وزیر اعظم کی کرسی کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے میاں نواز شریف کے مد مقابل تھے مگر قومی اسمبلی کے معزز ایوان میں ووٹنگ سے پہلے ہی سب جانتے تھے کہ کرسی کس کی ہے؟ جاوید ہاشمی نے ایوان میں تقریر کے دوران جہاں نئی حکومت کو ملک چلانے کے لیے کچھ چیزیں باور کروائیں وہیں وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ان کے منہ سے یہ نکل گیا کہ میاں نواز شریف ان کے لیڈر تھے اور رہیں گے۔ شاید لاشعور کے کسی بند دریچہ سے اب بھی ماضی کی روشنی چھلک رہی تھی، تبھی تو پاکستان تحریک انصاف کے صدر ہونے کے باوجود ہاشمی صاحب یہ کہہ گئے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے میاں نواز شریف کو ماضی کی اپنی کچھ وفاداریاں بھی یاد دلا دیں۔
اگر انٹرنیٹ پر ابھی جا کر ان کی اس تقریر کا کلپ دیکھیں تو آپ کو جاوید ہاشمی کی تقریر اور اس پر میاں نواز شریف کا بغیر کسی تاثر سپاٹ چہرے کے ساتھ بیٹھے رہنا، آپ کو جاوید ہاشمی پر غصہ نہیں ان سے ہمدردی کا احساس دے گا۔ یہ تقریر ہونے کی دیر تھی کہ جاوید ہاشمی کا یہ بیان سیاسی حلقوں میں ان کے خلاف مختلف چہ مگویوں اور الزامات کی شکل میں سامنے آیا، کچھ نے کہا کہ جاوید ہاشمی میاں صاحب کو یہ عندیہ دینا چاہتے تھے کہ وہ انہیں پارٹی میں واپس لے لیں۔ مگر میرے خیال میں تقریر کے دوران یہ لمحہ وہ تھا جب شاید جاوید ہاشمی کو ماضی کی وہ ساری کوششیں، قربانیاں وفاداریاں یوں فلیش بیک ہوئیں کہ وہ یہ ہی بھول گئے کہ اب ان کی وفاداریاں کسی اور سیاسی جماعت کے لیے ہیں۔ جاوید ہاشمی کو تنقید کا اتنا نشانہ بنایا گیا کہ انہیں چار روز بعد ہی میڈیا کے سامنے اپنا یہ بیان واپس لینا پڑا۔
مخدوم جاوید ہاشمی 1985 ء سے پاکستان مسلم لیگ ن کا حصہ تھے، 1999 ء میں ملک میں لگنے والے مارشل لاء کے بعد جب میاں نواز شریف کو حراست میں لیا گیا تو کلثوم نواز کے علاوہ جاوید ہاشمی وہ شخص تھے جو میاں نوازشریف کے ساتھ کھڑے تھے باقی سب تو تتر بتر ہو کر اپنی اپنی جان بچانے کو بھاگ نکلے تھے۔ یہی نہیں جاوید ہاشمی نے تو اپنی جماعت کی خاطر 2003 ء میں پاک فوج کے منہ سے اپنے لیے غداری کا الزام بھی سہا اورانہیں 23 برس کی سزا سنائی گئی۔ میاں صاحب کی جلا وطنی کے دوران جیل کی کال کوٹھڑی میں اس شخص نے چار برس گزارے اور 2007 ء میں انہیں وہاں سے سپریم کورٹ کے حکم پر آزاد کیا گیا۔ جب وہ جیل سے باہر آئے تو یوں لگتا تھا کہ جیسے ان چار برسوں کے دوران وہ اپنی 23 سال کی سزا کاٹ کر آئے ہیں۔ لاغر، کمزور، ضعیف۔۔۔ بات کرنے کے قابل تک نہ بچے تھے جاوید ہاشمی۔
ایسے شخص کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت پر میاں نوازشریف کا چند سیکنڈز کا ایک بیان سامنے آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی خدا حافظ کہہ کر جاتے تو اچھا ہوتا۔ اس وقت کے وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ مخدوم جاوید ہاشمی کو چونکہ قائد حزب اختلاف یا پارلیمانی لیڈر نہیں بنایا گیا اسی لیے وہ ناراض ہیں اور پارٹی چھوڑدی۔ تو رانا صاحب کیا جاوید ہاشمی کا یہ مطالبہ غلط تھا؟ کیا ان کا باغی ہونا بلاوجہ ہے؟ اتنی قربانیوں کے بعد وہ اتنے کے حق دار تو بنتے تھے۔ مگر بات کچھ اور تھی جاوید ہاشمی جیسا شخص ظرف کا اتنا کمزور نہیں ہوسکتا کہ ان کی جماعت کو اگر یہ یاد نہیں رہا تھا کہ جماعت پر ان کا حق کئی لوگوں سے کہیں زیادہ ہے تو وہ خود اس بات کو ان کے گوش گزار کر کے ان سے عہدہ کا مطالبہ کرتے۔ درحقیقت تو میاں برادران کی جلا وطنی سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی جاوید ہاشمی کو ’کھڈے لائن‘ کر دیا گیا تھا۔ مگر وہ پھر بھی پارٹی کو اپنا خون پلاتے رہے۔
2008 ء کے انتخابات کے بعد جاوید ہاشمی پارٹی ارکان کی تنقید کا اکثر نشانہ اس لیے بنتے تھے کیونکہ وہ پارٹی میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ ویسے 2008 ء کے انتخابات سے یاد آیا کہ جاوید ہاشمی نے ان انتخابات میں پنڈی میں شیخ رشید کوہرایا، ایک سیٹ ملتان اور ایک لاہور سے جیتی، یعنی کل ملا کر تین حلقوں میں کامیابی حاصل کی اس کے باوجود وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے مشرف سے حلف لینے سے انکار کیا اور اسی لیے وہ وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی کی پارٹی چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ میاں شہباز شریف سے اختلافات بھی تھے۔ میاں صاحب نے جاوید ہاشمی سے یہ کہا کہ وہ پارٹی معاملات میں نقطہ چینیاں کرنا چھوڑ دیں اور تین حلقوں میں کامیابی کا رعب نہ ڈالا کریں، ان حلقوں سے مسلم لیگ ن کسی کو بھی کھڑا کرتی تو وہ جیت ہی جاتا۔ اور یہ بات 2010 ء میں جاوید ہاشمی پر فالج کا حملہ بن کر ٹوٹی اور ان کی زبان لکنت سے دوچار ہوئی۔
میری کسی پارٹی سے کسی قسم کی کوئی وابستگی تو نہیں ہے مگر ہاں چند گنے چنے لوگ ہیں جنہیں سیاستدان کے طور پر میں پسند کرتی ہوں۔ اُن میں سے جاوید ہاشمی بھی ایک ہیں۔ قومی اسمبلی کے معزز ایوان میں جب جاوید ہاشمی نے پہلے میاں نواز شریف کو اپنا لیڈر کہا اور پھرعمران خان (جنہیں سیاست میں آئے ابھی دو دہائیاں بھی نہیں گزریں) کو، تو دل عجیب سے سوالوں کے جال میں پھنس گیا۔ کیا سیاست میں اتنے برس گزارنے، ایمانداری اور وفاداریاں نبھانے کے بعد، ان سب سے زیادہ سیاسی تجربہ رکھنے والے جاوید ہاشمی جو خود اپنے اندر ایک لیڈر ہیں کیا انہیں دوسرے سیاستدانوں میں اپنا لیڈر تلاش کرنے کی ضرورت ہے؟