یہ نومبر 2007ء کی بات ہے جب ایک دن ایکسپریس نیوز کے ڈائریکٹر نیوز فہد حسین نے مجھے لاہور ائیر پورٹ جانے کا کہا جہاں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف آٹھ برس کی جلا وطنی کے بعد پاکستان پہنچ رہے تھے اور مجھےان کی آمد کو کوور کرنا تھا۔ یہ بات سنتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ جیسے کہ میں بہت ہی اہم ہوں۔ لاہورائیر پورٹ پہنچی تو وہاں پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنان کا جم غفیر موجود تھا۔ کافی دیر ادھر ادھر لوگوں کے انٹرویو کرتی رہی ایک دو بینالقوامی نیوز چینلز کو بھی ٹیلی فون پر ائیر پورٹ کے حالات حاضرہ کا حال سنایا۔ بالآخر وہ وقت آگیا جب دونوں شریف برادران ائیر پورٹ کی لابی سے باہر نکلے۔ لوگوں کے ٹھاٹھے مارتے حجوم میں دو دمکتے چہرے عیاں ہوئے۔ جو اسی حجوم کی لہروں پر سوار اپنی گاڑی تک پہنچے اور گھر روانہ ہوگئے۔
یہی منظر میں نے نومبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی لاہور آمد پر بھی دیکھا۔ جب وہ مشرف کی جانب سے ملک میں نافذ کی جانے والی ایمرجنسی کے خلاف لاہور سے اسلام آباد تک کی لانگ مارچ کا ارادہ لےکرلاہور پہنچی تھیں ۔ آٹھ برس پر محیط آمریت کی کالی رات میں ان دونوں لیڈران کا پاکستان واپس آنا امید کی ایک کرن لگتا تھا۔ بے نظیر بھٹو کو تو 2008ء کے انتخابات سے قبل ہی قتل کر دیا گیا اور میاں نواز شریف وزیر اعظم نہ بن سکے۔ پیپلز پارٹی نے 2008ء میں جمہوری حکومت قائم کی، 5 برس ان کی پارٹی کے لیے تو شاید آنکھ جھپکتے گزر گئے ہوں مگر عوام اور ملک پر یہ عرصہ بہت بھاری تھا۔
ووٹ دینے کا حق میں نے پہلی مرتبہ 2008ء کے انتخابات میں استعمال کیا وہ بھی شوقیہ۔ سو میں نے ایک ووٹ پاکستان مسلم لیگ ن اور دوسرا پاکستان پیپلز پارٹی کو دیا،خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ وفاق اور صوبہ میں دونوں امیدوار ہی شکست سے دوچار ہو گئے مگر 2013ء کے انتخابات میں، میں ووٹ تو نہ دے سکی مگر انتخابات کے نتائج نے مجھے یہ اطلاع دے دی کہ پاکستانی عوام نیند سے بیدار ہو چکی ہے۔ انہوں نے بتا دیا کہ کارکردگی نہیں تو کرسی بھی نہیں۔
میاں نواز شریف کو 5 جون کو وزیر اعظم کی کرسی پر تیسری مرتبہ بٹھا دیا گیا۔ اس کرسی نے جہاں ان کے سر پر فتح کا تاج سجایا ہے وہیں یہ ان کے لیے بہت سے کڑے امتحان اور آزمائشیں بھی لائی ہے۔ میاں نواز شریف نے سب سیاسی مخالفین کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی تاکہ ملکی مسائل کو مل جل کر حل کیا جائے۔ یہ سنتے ہی یوں لگا کہ جیسے اب کوئی سیاستدان کسی سیاستدان کے خلاف بات نہ کرے گا، سب مل جل کر ملک کی سالمیت اور ترقی کی سوچ کو عملی جامہ پہنائیں۔ معزز ایوان میں حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان کو ئی کیچڑ نہ اچھالہ جائے، اور ملک خوشحالی کی منزلیں تیزی سے طے کرنے لگے۔ چلیے بس! اب آپ بھی میری طرح اس خواب سے باہر آجائیے۔ میاں صاحب کا اس طرح تمام پارٹیوں کو ایک میز پر مل بیٹھنے کی دعوت دینا یقیناً خوش آئیند ہے مگر میاں صاحب ماضی میں ہونے والی ایسی مصالحتوں کے نتائج کو بھی ذہن میں تازہ رکھئیے گا ذرا۔
ویسے کبھی کبھار تو میں سوچتی ہوں کہ عمران خان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاھئیے کہ وہ اس بار وزیر اعظم نہیں بنے کیونکہ پیلز پارٹی جس شکل میں پاکستان کو چھوڑ کر گئی ہے اسے ان کے لیے سنبھالنا دودھ کی نہر کھودنے کے مترادف ہوتا اور اگر وہ ناکام ہوجاتے تو انہیں دوسرا موقع بھی نہ ملتا۔ ویسے تو پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس بھی اب یہ آخری چانس ہی ہے۔
نئی حکومت کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ توانائی بحران، دہشت گردی، تار تار ہوئی معیشیت اور کرپشن کا اژدھا منہ کھولے بیٹھا ہے۔ توانائی کے بحران کا مسئلہ سب سے اہم ہے جو اس وقت ہماری معشیت، سرمایہ کاری اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
میاں نواز شریف کا یہ بیان کہ ’اب ہر گھر میں پنکھا چلے گا اور صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند نہ ہوگاٴ، کانوں کو بہت بھلا لگا۔ یوں محسوس ہوا کہ بس اب میاں صاحب کوئی چھڑی گھمائیں گے اور پاکستان میں چھائے اندھیرے کے بادل چھٹ جائیں گے، گھر اور بازار روشن ہوں گے۔ کارخانوں کی مشینری چوبیسوں گھنٹے چلا کرے گی، اے سی چلاتے وقت امی یہ نہیں کہا کریں گی کہ بند کر دو بل آجائے گا؟ اب پاکستان میں شدت پسندی کا خوف نہ پنجاب میں ہوگا نہ سندھ میں، نہ بلوچستان میں اور نہ خیبر پختونخواہ کے کسی علاقے میں۔ ڈی چوک اسلام آباد کے باہر احتجاج کرنے والے گم شدہ افراد (مسنگ پرسنز) کے لواحقین بھی اب جلد اپنے پیاروں کو دیکھ پائیں گے۔
حقیقت یہ ہے اس سب کے لیے نو منتخب وزیر اعظم کو ایسی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی جو وقتی کے ساتھ ساتھ مسائل کا طویل مدتی حل بھی بتائیں۔ اور صرف پالیسیاں تشکیل دینا ہی نہیں ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ میاں صاحب عوام مانتی ہے کہ آپ کے پاس ایسی کوئی چھڑی نہیں ہے، مگر یقین کیجئیے! عوام جب یہ دیکھے گی کہ آپ خلوص ِ نیت اور ایمانداری سے ملک و قوم کے لیےکام کر رہے ہیں تو آپ کے حامی ہی کیا، آپ کے مخالف عوام بھی آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گی۔عوام کی نظریں اس وقت آپ کے ہر عمل پر لگی ہیں۔
عوام دیکھے گی کہ دس رکنی وفاقی کابینہ کا نمبر جو اب 25 پر پہنچ گیا ہے اس میں مزید کتنا اضافہ ہوگا؟ مشرف دور کی کابینہ کے وزیر ِقانون آپ کی کابینہ میں وزیر قانون کیوں بنائے گئے؟ بڑے بڑے عہدوں پر میرٹ کی بنیاد پر تعیناتیاں کی جاتی ہیں یا رشتہ داریوں اور برادری کی بنیاد پر؟ بلوچستان ، خیبر پختونخواہ اور جنوبی پنجاب میں کتنے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جارہے ہیں؟ ملک بھر میں شروع کیے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کے ٹینڈر مناسب کوٹیشنز دینے والوں کے نام کھلیں گے یا پھر ان دوست احباب اور رشتہ داروں کے نام جنہیں اپنے مالی حالات بہتر کرنے ہیں؟ ایوانِِ صدر، وزیر اعظم ہاؤس، وزیر اعلی سیکرٹیریٹ اور گورنر ہاؤس میں روزانہ خرچہ کتنا ہوگا؟
امید یہ بھی کی جارہی ہے کہ نئی حکومت اگلے سات سے دس روز میں اپنا پہلا بجٹ دے دی گی جس میں سے 70٪ تنخواہوں، ڈیفنس اور بیرونی قرضہ جات اتارنے میں خرچ ہوگا۔ باقی بچنے والی رقم تعلیم، صحت اور دیگر شعبہ جات میں کیسے خرچ کی جائے گی؟ یہ بھی کسی بڑے امتحان سے کم نہیں۔
پاکستانی معیشیت کا حال یہ ہے کہ کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ملکی و بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے جلد آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا تو ایسے حالات میں میاں صاحب آپ کیا کریں گے؟
آپ نے تو یہ بات بھی کی کہ امریکہ کی جانب سے کیے جانے والے ڈرون حملوں کا باب بند ہونا چاھئیے، کیا آپ امریکہ سے اس سلسلے میں بات چیت کرکے اپنے مطالبات منوانے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ اور دلائل رکھتے ہیں؟ اور اس کے جو بھی نتائج سامنے آئیں گے اس میں کیا عوام کو اعتماد میں لیا جائے گا؟ آپ ماضی میں امریکی امداد کے بھی خلاف تھے آپ اور آپ کے بھائی میاں شہباز شریف کشکول توڑنے کی باتیں کرتے تھے تو اب پرانی حکومت آپ کے لیے جو معاشی آزمائشیں چھوڑ کر گئی ہے ان سے کیسے نمٹیں گے؟ ٓکیری لوگر بل، جو پاکستان کو پیپلز پارٹی کی جانب سے دیا جانے والا ’تحفہ‘ ہے، جس کے توسط سے ہر برس ملک میں 1.5 بلین ڈالر کی امداد آتی ہے ( وہ جاتی کہاں ہے اس کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتی) 2014ء میں اس کی مدت ِمعیاد ختم ہو رہی ہے کیا آپ اس کی توسیع کا مطالبہ امریکہ سے نہیں کریں گے؟
پاکستان کی نو منتخب حکومت کو یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئیے کہ اب پاکستان کی عوام وہ نہیں رہی جو چند برس پہلے تھی، پاکستان کی عدلیہ آزاد اور خود مختار ہے، میڈیا بال کی کھال اتارنے میں ذرا بھی دریغ سے کام نہیں لیتا اور آئندہ سیاست میں دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے تو ایسا نہ سمجھیں کہ عوام کے پاس آپشن نہیں ہے۔ پانچ برس پیپلز پارٹی کی حکومت کی کارکردگی کے بعد عوام نے آپ کی شکل میں دوسری آپشن اپنائی اب یہ نہ ہو کہ اگلے انتخابات میں وہ تیسرا آپشن چننا مناسب سمجھیں۔
یہی منظر میں نے نومبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی لاہور آمد پر بھی دیکھا۔ جب وہ مشرف کی جانب سے ملک میں نافذ کی جانے والی ایمرجنسی کے خلاف لاہور سے اسلام آباد تک کی لانگ مارچ کا ارادہ لےکرلاہور پہنچی تھیں ۔ آٹھ برس پر محیط آمریت کی کالی رات میں ان دونوں لیڈران کا پاکستان واپس آنا امید کی ایک کرن لگتا تھا۔ بے نظیر بھٹو کو تو 2008ء کے انتخابات سے قبل ہی قتل کر دیا گیا اور میاں نواز شریف وزیر اعظم نہ بن سکے۔ پیپلز پارٹی نے 2008ء میں جمہوری حکومت قائم کی، 5 برس ان کی پارٹی کے لیے تو شاید آنکھ جھپکتے گزر گئے ہوں مگر عوام اور ملک پر یہ عرصہ بہت بھاری تھا۔
ووٹ دینے کا حق میں نے پہلی مرتبہ 2008ء کے انتخابات میں استعمال کیا وہ بھی شوقیہ۔ سو میں نے ایک ووٹ پاکستان مسلم لیگ ن اور دوسرا پاکستان پیپلز پارٹی کو دیا،خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ وفاق اور صوبہ میں دونوں امیدوار ہی شکست سے دوچار ہو گئے مگر 2013ء کے انتخابات میں، میں ووٹ تو نہ دے سکی مگر انتخابات کے نتائج نے مجھے یہ اطلاع دے دی کہ پاکستانی عوام نیند سے بیدار ہو چکی ہے۔ انہوں نے بتا دیا کہ کارکردگی نہیں تو کرسی بھی نہیں۔
میاں نواز شریف کو 5 جون کو وزیر اعظم کی کرسی پر تیسری مرتبہ بٹھا دیا گیا۔ اس کرسی نے جہاں ان کے سر پر فتح کا تاج سجایا ہے وہیں یہ ان کے لیے بہت سے کڑے امتحان اور آزمائشیں بھی لائی ہے۔ میاں نواز شریف نے سب سیاسی مخالفین کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی تاکہ ملکی مسائل کو مل جل کر حل کیا جائے۔ یہ سنتے ہی یوں لگا کہ جیسے اب کوئی سیاستدان کسی سیاستدان کے خلاف بات نہ کرے گا، سب مل جل کر ملک کی سالمیت اور ترقی کی سوچ کو عملی جامہ پہنائیں۔ معزز ایوان میں حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان کو ئی کیچڑ نہ اچھالہ جائے، اور ملک خوشحالی کی منزلیں تیزی سے طے کرنے لگے۔ چلیے بس! اب آپ بھی میری طرح اس خواب سے باہر آجائیے۔ میاں صاحب کا اس طرح تمام پارٹیوں کو ایک میز پر مل بیٹھنے کی دعوت دینا یقیناً خوش آئیند ہے مگر میاں صاحب ماضی میں ہونے والی ایسی مصالحتوں کے نتائج کو بھی ذہن میں تازہ رکھئیے گا ذرا۔
ویسے کبھی کبھار تو میں سوچتی ہوں کہ عمران خان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاھئیے کہ وہ اس بار وزیر اعظم نہیں بنے کیونکہ پیلز پارٹی جس شکل میں پاکستان کو چھوڑ کر گئی ہے اسے ان کے لیے سنبھالنا دودھ کی نہر کھودنے کے مترادف ہوتا اور اگر وہ ناکام ہوجاتے تو انہیں دوسرا موقع بھی نہ ملتا۔ ویسے تو پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس بھی اب یہ آخری چانس ہی ہے۔
نئی حکومت کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ توانائی بحران، دہشت گردی، تار تار ہوئی معیشیت اور کرپشن کا اژدھا منہ کھولے بیٹھا ہے۔ توانائی کے بحران کا مسئلہ سب سے اہم ہے جو اس وقت ہماری معشیت، سرمایہ کاری اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
میاں نواز شریف کا یہ بیان کہ ’اب ہر گھر میں پنکھا چلے گا اور صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند نہ ہوگاٴ، کانوں کو بہت بھلا لگا۔ یوں محسوس ہوا کہ بس اب میاں صاحب کوئی چھڑی گھمائیں گے اور پاکستان میں چھائے اندھیرے کے بادل چھٹ جائیں گے، گھر اور بازار روشن ہوں گے۔ کارخانوں کی مشینری چوبیسوں گھنٹے چلا کرے گی، اے سی چلاتے وقت امی یہ نہیں کہا کریں گی کہ بند کر دو بل آجائے گا؟ اب پاکستان میں شدت پسندی کا خوف نہ پنجاب میں ہوگا نہ سندھ میں، نہ بلوچستان میں اور نہ خیبر پختونخواہ کے کسی علاقے میں۔ ڈی چوک اسلام آباد کے باہر احتجاج کرنے والے گم شدہ افراد (مسنگ پرسنز) کے لواحقین بھی اب جلد اپنے پیاروں کو دیکھ پائیں گے۔
حقیقت یہ ہے اس سب کے لیے نو منتخب وزیر اعظم کو ایسی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی جو وقتی کے ساتھ ساتھ مسائل کا طویل مدتی حل بھی بتائیں۔ اور صرف پالیسیاں تشکیل دینا ہی نہیں ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ میاں صاحب عوام مانتی ہے کہ آپ کے پاس ایسی کوئی چھڑی نہیں ہے، مگر یقین کیجئیے! عوام جب یہ دیکھے گی کہ آپ خلوص ِ نیت اور ایمانداری سے ملک و قوم کے لیےکام کر رہے ہیں تو آپ کے حامی ہی کیا، آپ کے مخالف عوام بھی آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گی۔عوام کی نظریں اس وقت آپ کے ہر عمل پر لگی ہیں۔
عوام دیکھے گی کہ دس رکنی وفاقی کابینہ کا نمبر جو اب 25 پر پہنچ گیا ہے اس میں مزید کتنا اضافہ ہوگا؟ مشرف دور کی کابینہ کے وزیر ِقانون آپ کی کابینہ میں وزیر قانون کیوں بنائے گئے؟ بڑے بڑے عہدوں پر میرٹ کی بنیاد پر تعیناتیاں کی جاتی ہیں یا رشتہ داریوں اور برادری کی بنیاد پر؟ بلوچستان ، خیبر پختونخواہ اور جنوبی پنجاب میں کتنے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جارہے ہیں؟ ملک بھر میں شروع کیے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کے ٹینڈر مناسب کوٹیشنز دینے والوں کے نام کھلیں گے یا پھر ان دوست احباب اور رشتہ داروں کے نام جنہیں اپنے مالی حالات بہتر کرنے ہیں؟ ایوانِِ صدر، وزیر اعظم ہاؤس، وزیر اعلی سیکرٹیریٹ اور گورنر ہاؤس میں روزانہ خرچہ کتنا ہوگا؟
امید یہ بھی کی جارہی ہے کہ نئی حکومت اگلے سات سے دس روز میں اپنا پہلا بجٹ دے دی گی جس میں سے 70٪ تنخواہوں، ڈیفنس اور بیرونی قرضہ جات اتارنے میں خرچ ہوگا۔ باقی بچنے والی رقم تعلیم، صحت اور دیگر شعبہ جات میں کیسے خرچ کی جائے گی؟ یہ بھی کسی بڑے امتحان سے کم نہیں۔
پاکستانی معیشیت کا حال یہ ہے کہ کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ملکی و بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے جلد آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا تو ایسے حالات میں میاں صاحب آپ کیا کریں گے؟
آپ نے تو یہ بات بھی کی کہ امریکہ کی جانب سے کیے جانے والے ڈرون حملوں کا باب بند ہونا چاھئیے، کیا آپ امریکہ سے اس سلسلے میں بات چیت کرکے اپنے مطالبات منوانے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ اور دلائل رکھتے ہیں؟ اور اس کے جو بھی نتائج سامنے آئیں گے اس میں کیا عوام کو اعتماد میں لیا جائے گا؟ آپ ماضی میں امریکی امداد کے بھی خلاف تھے آپ اور آپ کے بھائی میاں شہباز شریف کشکول توڑنے کی باتیں کرتے تھے تو اب پرانی حکومت آپ کے لیے جو معاشی آزمائشیں چھوڑ کر گئی ہے ان سے کیسے نمٹیں گے؟ ٓکیری لوگر بل، جو پاکستان کو پیپلز پارٹی کی جانب سے دیا جانے والا ’تحفہ‘ ہے، جس کے توسط سے ہر برس ملک میں 1.5 بلین ڈالر کی امداد آتی ہے ( وہ جاتی کہاں ہے اس کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتی) 2014ء میں اس کی مدت ِمعیاد ختم ہو رہی ہے کیا آپ اس کی توسیع کا مطالبہ امریکہ سے نہیں کریں گے؟
پاکستان کی نو منتخب حکومت کو یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئیے کہ اب پاکستان کی عوام وہ نہیں رہی جو چند برس پہلے تھی، پاکستان کی عدلیہ آزاد اور خود مختار ہے، میڈیا بال کی کھال اتارنے میں ذرا بھی دریغ سے کام نہیں لیتا اور آئندہ سیاست میں دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے تو ایسا نہ سمجھیں کہ عوام کے پاس آپشن نہیں ہے۔ پانچ برس پیپلز پارٹی کی حکومت کی کارکردگی کے بعد عوام نے آپ کی شکل میں دوسری آپشن اپنائی اب یہ نہ ہو کہ اگلے انتخابات میں وہ تیسرا آپشن چننا مناسب سمجھیں۔