واشنگٹن —
پندرہ سالہ آسٹن بریمسن نے آج پہلی بار سرفنگ کی ہے اور یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہے کیوں کہ وہ ایک ایسی جینیاتی بیماری کا شکار ہے جس کے باعث وہ چلنے پھرنے اور بات کرنے سے معذور ہوچکا ہے۔
آسٹن کی والدہ نینسی کروز بتاتی ہیں کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت سے ہی اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے بھی دوسروں کا محتاج چلا آرہا ہے اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ہی ایسا رہے گا۔
ان کے بقول، "اسے ہمیشہ 'ڈائپرز' کی ضرورت ہوگی، اسے کسی اور کے ہاتھ سے کھانا کھانا پڑے گا کیوں کہ وہ خود نہ تو کھاسکتا ہے اور نہ ہی پی سکتا ہے، وہ خود اپنا لباس بھی تبدیل نہیں کرسکتا اور یہاں تک کہ وہ اپنی وہیل چیئر چلانے کے لیے بھی کسی دوسرے کی مدد کا محتاج ہے"۔
لیکن ایک ایسا بچہ آج لائف جیکٹ اور واٹر سیفٹی ہیلمٹ پہنے بحرِ اوقیانو س کی لہروں پر سفر کرنے کو تیار ہے۔ آسٹن ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ان لگ بھگ ایک درجن بچوں کے گروپ کا حصہ ہے جو امریکی ریاست نیو جرسی کے اس معروف ساحلی مقام 'لانگ برانچ' پر اپنی زندگی کے چند حسین ترین دن گزارنے جمع ہوئے ہیں۔
ایک رضاکار نے آسٹن کو اپنی بانہوں میں بھر کر اس کی وہیل چیئر سے اٹھایا اور سرفنگ کرنے والے تختے پر پیٹ کے بل لٹادیا۔ پھر چند رضاکار اس بورڈ کو ساحل سے 15 میٹر دور سمندر میں لے گئے اور جیسے ہی ایک بڑی لہر آئی، آسٹن نے ایک رضاکار کی مدد سے سرفنگ شروع کردی۔
وہ رضاکار اسی تختے پر آسٹن کے پیچھے اس طرح سوار تھا کہ اس نے آسٹن کو اپنی بانہوں کے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا۔ اور جب اس تجربے کے بعد آسٹن ساحل پر واپس لوٹا تو خوشی سے اس کا چہرہ تمتما رہا تھا اور فرطِ انبساط سے اس کے ہاتھوں اور پیر وں پر کپکپی طاری تھی اوراس کی والدہ اپنے بیٹے کو اتنا خوش دیکھ کر خود بھی خوشی سے نہال اور روہانسی ہورہی تھیں۔
یہ منظر 'بیسٹ ڈے ایٹ دا بیچ' کا ہےجو اسی نام سے قائم ایک تنظیم ہر سال 4 سے 24 سال تک کی عمر کے ایسے بچوں اور نوجوانوں کے لیے مناتی ہے جو ذہنی اور جسمانی معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ بچے ساحل پر آکر رضاکاروں کی مدد سے سرفنگ اور دیگر کھیل کود کرتے ہیں جب کہ ان کے والدین، اہلِ خانہ اور اس تنظیم کے لیے کام کرنے والے رضاکار انہیں یوں زندگی کے مزے اڑاتے دیکھ کر نہال ہوتے ہیں۔
میکس منٹگمری ایک ماہر سرفر اور اس تنظیم کے بانی ہیں جنہوں نے ایک ایسے ہی مقامی پروگرام سے متاثر ہو کر چار سال قبل اپنے آبائی علاقے کیلی فورنیا میں اس تنظیم اور اس کی سرگرمیوں کی بنیاد رکھی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی اس سرگرمی کا مقصد ان بچوں اور ان کے والدین میں جینے کی امنگ پیدا کرنا اور انہیں یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اگر آپ اپنی محتاجی کو اپنی مجبوری نہ بنائیں تو زندگی میں سب کچھ کرنا ممکن ہے۔
منٹگمری کے پاس اس ایونٹ میں آنے والے بیشتر بچے آٹزم، ڈائون سینڈروم اور اسی نوعیت کی دیگر ذہنی معذوریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی تنظیم ہر سال اپنی مختلف شاخوں کے تحت 20 سے زائد ایسے ایونٹ منعقد کرتی ہے جن میں سے ہر ایک میں تقریباً 40 معذور بچوں اور بڑوں کی تفریحِ طبع کا اہتمام ہوتا ہے۔
ان ایونٹ کے انعقاد میں درجنوں رضاکار منٹگمری کی مدد کرتے ہیں جو اپنی مصروف زندگیوں میں سے وقت نکال کر ان بچوں میں خوشیاں بانٹنے ان ساحلی مقامات پر آتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرکے حاصل ہونے والی لازوال خوشی سمیٹ کر واپس لوٹتے ہیں۔
آسٹن کی والدہ نینسی کروز بتاتی ہیں کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت سے ہی اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے بھی دوسروں کا محتاج چلا آرہا ہے اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ہی ایسا رہے گا۔
ان کے بقول، "اسے ہمیشہ 'ڈائپرز' کی ضرورت ہوگی، اسے کسی اور کے ہاتھ سے کھانا کھانا پڑے گا کیوں کہ وہ خود نہ تو کھاسکتا ہے اور نہ ہی پی سکتا ہے، وہ خود اپنا لباس بھی تبدیل نہیں کرسکتا اور یہاں تک کہ وہ اپنی وہیل چیئر چلانے کے لیے بھی کسی دوسرے کی مدد کا محتاج ہے"۔
لیکن ایک ایسا بچہ آج لائف جیکٹ اور واٹر سیفٹی ہیلمٹ پہنے بحرِ اوقیانو س کی لہروں پر سفر کرنے کو تیار ہے۔ آسٹن ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ان لگ بھگ ایک درجن بچوں کے گروپ کا حصہ ہے جو امریکی ریاست نیو جرسی کے اس معروف ساحلی مقام 'لانگ برانچ' پر اپنی زندگی کے چند حسین ترین دن گزارنے جمع ہوئے ہیں۔
ایک رضاکار نے آسٹن کو اپنی بانہوں میں بھر کر اس کی وہیل چیئر سے اٹھایا اور سرفنگ کرنے والے تختے پر پیٹ کے بل لٹادیا۔ پھر چند رضاکار اس بورڈ کو ساحل سے 15 میٹر دور سمندر میں لے گئے اور جیسے ہی ایک بڑی لہر آئی، آسٹن نے ایک رضاکار کی مدد سے سرفنگ شروع کردی۔
وہ رضاکار اسی تختے پر آسٹن کے پیچھے اس طرح سوار تھا کہ اس نے آسٹن کو اپنی بانہوں کے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا۔ اور جب اس تجربے کے بعد آسٹن ساحل پر واپس لوٹا تو خوشی سے اس کا چہرہ تمتما رہا تھا اور فرطِ انبساط سے اس کے ہاتھوں اور پیر وں پر کپکپی طاری تھی اوراس کی والدہ اپنے بیٹے کو اتنا خوش دیکھ کر خود بھی خوشی سے نہال اور روہانسی ہورہی تھیں۔
یہ منظر 'بیسٹ ڈے ایٹ دا بیچ' کا ہےجو اسی نام سے قائم ایک تنظیم ہر سال 4 سے 24 سال تک کی عمر کے ایسے بچوں اور نوجوانوں کے لیے مناتی ہے جو ذہنی اور جسمانی معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ بچے ساحل پر آکر رضاکاروں کی مدد سے سرفنگ اور دیگر کھیل کود کرتے ہیں جب کہ ان کے والدین، اہلِ خانہ اور اس تنظیم کے لیے کام کرنے والے رضاکار انہیں یوں زندگی کے مزے اڑاتے دیکھ کر نہال ہوتے ہیں۔
میکس منٹگمری ایک ماہر سرفر اور اس تنظیم کے بانی ہیں جنہوں نے ایک ایسے ہی مقامی پروگرام سے متاثر ہو کر چار سال قبل اپنے آبائی علاقے کیلی فورنیا میں اس تنظیم اور اس کی سرگرمیوں کی بنیاد رکھی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی اس سرگرمی کا مقصد ان بچوں اور ان کے والدین میں جینے کی امنگ پیدا کرنا اور انہیں یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اگر آپ اپنی محتاجی کو اپنی مجبوری نہ بنائیں تو زندگی میں سب کچھ کرنا ممکن ہے۔
منٹگمری کے پاس اس ایونٹ میں آنے والے بیشتر بچے آٹزم، ڈائون سینڈروم اور اسی نوعیت کی دیگر ذہنی معذوریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی تنظیم ہر سال اپنی مختلف شاخوں کے تحت 20 سے زائد ایسے ایونٹ منعقد کرتی ہے جن میں سے ہر ایک میں تقریباً 40 معذور بچوں اور بڑوں کی تفریحِ طبع کا اہتمام ہوتا ہے۔
ان ایونٹ کے انعقاد میں درجنوں رضاکار منٹگمری کی مدد کرتے ہیں جو اپنی مصروف زندگیوں میں سے وقت نکال کر ان بچوں میں خوشیاں بانٹنے ان ساحلی مقامات پر آتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرکے حاصل ہونے والی لازوال خوشی سمیٹ کر واپس لوٹتے ہیں۔