پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ تعلقات اور سرحد پر تناؤ کے باعث قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے افغان سرحد کے قریب واقع دیہاتوں میں لوگ خوف و ہراس کا شکار ہیں اور متعدد خاندان یہاں سے نقل مکانی بھی کر رہے ہیں۔
مقامی لوگوں کی تشویش میں اضافہ اس وقت ہوا جب قبائلی انتظامیہ کے بقول اتوار کو دیر گئے مبینہ طور پر سرحد پار افغانستان سے داغے گئے گولے ان سرحدی دیہاتوں میں گرے جس سے ایک خاتون سمیت دو افراد ہلاک ہوگئے۔
قبائلی انتظامیہ کے مطابق شلمان کے علاقے میں واقع دیہاتوں شین پوکھ اور شمسائی سے لوگوں کی نقل مکانی منگل کو دوسرے روز بھی جاری رہی اور اب تک 300 سے زائد افراد لنڈی کوتل اور دیگر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ دریائے کابل کے کنارے آباد ان دیہاتوں کے لوگ رواں سال کے اوائل سے ہی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور فروری میں پاکستان کی طرف سے افغان سرحد بندی ہونے کے بعد یہاں صورتحال مزید تناؤ کا شکار ہو گئی تھی۔
حکام کے بقول نقل مکانی کرنے والے افراد کو قبائلی علاقوں میں آفات سے نمٹنے کے ادارے کے ساتھ مل کر معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔
یہ تازہ نقل مکانی ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے تین سال قبل نقل مکانی کرنے والے درجنوں افراد اپنے گھروں کو واپسی میں تاخیر پر سراپا احتجاج ہیں۔
شمالی وزیرستان کو شدت پسندوں سے پاک کرنے کے بعد یہاں سے بے گھر ہونے والے افراد کی مرحلہ وار واپسی شروع ہو چکی ہے اور حکام کے مطابق تقریباً 80 فیصد خاندان واپس اپنے گھروں کو جا چکے ہیں۔
لیکن باقی رہ جانے والے قبائلیوں کا کہنا ہے کہ ان کی واپسی میں مبینہ طور پر جان بوجھ کر تاخیر کی جا رہی ہے جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ صرف ان ہی لوگوں کو ابھی تک واپس نہیں بھیجا گیا جن کے علاقوں میں تعمیر نو اور بحالی کا کام ابھی مکمل نہیں ہوا اور جیسے ہی کام مکمل ہو گا ان لوگوں کو بھی باعزت طریقے سے ان کے علاقوں میں بھیج دیا جائے گا۔