|
ایک بچہ جسے نہیں معلوم تھا کہ اس کے والدین اسرائیلی حملے میں مارے گئےہیں، انہیں بلانے کے لیے چیخ رہا تھا۔ اس کے قریب اس کی بہن موجود تھی، لیکن وہ اسے نہیں پہچان سکا کیونکہ اس کا تقریباً پورا جسم جل چکا تھا۔ ایک چھوٹا بچہ جس کی اسی اسرائیلی حملے میں کھوپڑی ٹوٹ گئی تھی،دماغی چوٹ سے مر گیا۔ اس کی ایک شیر خوار کزن، جس کے چہرے کا کچھ حصہ اس حملے میں اڑ گیا تھا، اب بھی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔۔
دیر البلاح قصبے کے الاقصیٰ شہداء ہسپتال میں اردن سے تعلق رکھنے والی بچوں کی انتہائی نگہداشت کی ڈاکٹر تانیا حاج حسن نے رات کے 10 گھنٹے کی شفٹ کے بعد، ایسوسی ایٹڈ پریس کو بچوں کو درپیش ان خوفناک ہلاکتوں کی تفصیلات فراہم کیں۔
دورہ کرنے والی ٹیم میں شامل اردن کے ایک طبی کارکن مصطفیٰ ابو قاسم نے کہا کہ جب ہم مریضوں کو ڈھونڈتے ہیں تو وہاں کمرے نہیں ہوتے۔ "وہ راہداریوں میں کسی بستر پر، گدے پر یا فرش پر کسی کمبل پر پڑے ہوتے ہیں۔"
وسطی غزہ کے ایک اسپتال کا دورہ کرنے والی ڈاکٹروں کی ایک بین الاقوامی ٹیم بدترین حالات کے لیے تیار تھی۔ لیکن اس کے حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ نے جو بھیانک اثر فلسطینی بچوں پر ڈالا ہے، اس نے انہیں دہلا کر رکھ دیا۔
تانیا حسن نے بتایا،"میں یہاں اپنا زیادہ تر وقت بچوں کی زندگی بچانے میں گزارتی ہوں،" اس سے آپ غزہ کی پٹی کے ہر دوسرے اسپتال کے بارے میں کیا اندازہ لگا سکتے ہیں؟"
ڈاکٹرتانیا، جو غزہ میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں اور جنگ کے تباہ کن اثرات کے بارے میں باقاعدگی سے کھل کر بات کرتی ہیں، اس ٹیم میں شامل تھیں جس نے حال ہی میں وہاں دو ہفتے کا کام ختم کیا ہے۔
تقریباً چھ ماہ کی جنگ کے بعد غزہ کی صحت کا شعبہ تباہ ہو چکا ہے۔ غزہ کے 36 اسپتالوں میں سے تقریباً ایک درجن صرف جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔ باقی یا تو بند ہو چکے ہیں یا ایندھن اور ادویات ختم ہوجانے کے بعد بمشکل کام کر رہے ہیں۔ ان کا اسرائیلی فوجیوں نے گھیراؤ کیا ہے اور چھاپہ مارا، یا انہیں لڑائی میں نقصان پہنچا۔
اس کے نتیجے میں الاقصیٰ شہداء جیسے اسپتالوں کو محدود سامان اور عملے کے ساتھ مریضوں کی بہت بڑی تعداد کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔ اس کے انتہائی نگہداشت یونٹ کے زیادہ تر بستروں پر زخمی بچے موجود ہیں جن میں پٹیوں میں لپٹے اور آکسیجن ماسک پہنے نوزائیدہ بچے شامل ہیں۔
الاقصیٰ اسپتال میں کام کرنے والے بین الاقوامی ڈاکٹروں کی ایک مختلف ٹیم جنوری میں قریبی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہری تھی۔ لیکن قریب ہی اسرائیل کے حملوں میں حالیہ اضافے کی وجہ سے، تانیہ حاج حسن اور ان کے ساتھی کارکن ہسپتال میں ہی رکے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر تانیا اور دوسرے ڈاکٹروں نے غزہ میں بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی اور فلسطنیوں کے امدادی ادارے میڈیکل ایڈ کے لیے ہسپتال کے ایک دورے کا بندوبست کیا ریسکیو کمیٹی کی ٹیم کے لیڈر اروند داس نے کہا اس دورے میں انہوں نے ہسپتال کے تکلیف دہ حالات اور اس پر مریضوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو دیکھا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق جنگ سے پہلے اس ہسپتال میں 160 بستروں کی گنجائش تھی۔ اب وہاں تقریباً 800 مریض ہیں، لیکن ہسپتال کے عملے کے 120 ارکان میں سےبہت سے اب کام پر آنے کے قابل نہیں ہیں۔
ابو قاسم نے بتایا کہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو بھی غزہ کے دوسرے لوگوں کی طرح اپنے خاندانوں کے لیے کھانا تلاش کرنے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوشش میں ہر روز جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے کارکن اپنے بچوں کو قریب رکھنے کے لیے اپنے ساتھ ہسپتال لے کر آتے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ، یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے۔
جنگ کی وجہ سے اپنے گھروں سے نکالے گئے ہزاروں لوگ بھی اس امید پر ہسپتال کے گراؤنڈز میں رہ رہے ہیں کہ وہ ان کے لیے محفوظ ہوں گے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت ہسپتالوں کو خصوصی تحفظات حاصل ہیں، اگرچہ انہیں فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنےکی صورت میں ان تحفظات کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
دورہ کرنے والی ٹیم میں شامل اردن کے ایک طبی کارکن مصطفیٰ ابو قاسم نے کہا کہ انہیں مریضوں کی بھیڑ کو دیکھ کر سخت صدمہ پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم مریضوں کو ڈھونڈتے ہیں تو وہاں کمرے نہیں ہوتے۔ "وہ راہداریوں میں کسی بستر پر، گدے پر یا فرش پر کسی کمبل پر ہوتے ہیں۔"
اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ ہسپتال حماس کے لیے کمانڈ سینٹرز، ہتھیاروں کے ذخیرہ کرنے کی سہولیات اور ٹھکانے کے طور پر کام کرتے ہیں، لیکن اس نے بہت کم بصری ثبوت پیش کیے ہیں۔ حماس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ اسرائیل گزشتہ ایک ہفتے سے غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا میں بڑے پیمانے پر آپریشن کر رہا ہے۔
اسرائیلی فوجیوں نے الاقصی شہداء پر چھاپہ یا محاصرہ نہیں کیا ہے بلکہ ارد گرد کے علاقوں پر حملہ کیا ہے، بعض اوقات ہسپتال کے قریب بھی حملہ کیا ہے۔ جنوری میں، بہت سے ڈاکٹر، مریض اور بے گھر فلسطینی حملے کے ایک مسلسل سلسلے کے بعد ہسپتال سے فرار ہو گئے تھے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں اسرائیل کی بمباری اور جارحیت کے نتیجے میں 32,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور 2.3 ملین افراد کے علاقے میں تقریباً 75,000 زخمی ہوئے ہیں۔ یہ شمار جنگجوؤں اور عام شہریوں میں فرق نہیں کرتا، لیکن وزارت کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے تقریباً دو تہائی خواتین اور بچے ہیں۔
جنگ کے ابتدائی مراحل میں، اسرائیل نے غزہ میں خوراک، ایندھن اور طبی سامان کے داخلے کو سختی سے محدود کر دیا تھا۔ جب کہ اب امداد کی ترسیل بڑھ گئی ہے اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ اب ترسیل کی کوئی حد نہیں رہی ہے۔ بین الاقوامی برادری نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید امداد کو غزہ داخلے کی اجازت دے۔
امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ سرحد پر رسد کے معائنہ کے پیچیدہ طریقہ کار، مسلسل لڑائی، اور امن عامہ میں خرابی کی وجہ سے امدادی قافلوں کی آمد کی رفتار سست روی کا شکار ہوئی ہے۔ اسرائیل نے بدنظمی کا الزام اقوام متحدہ پر عائد کیا ہے۔
نتیجہ تباہ کن رہا ہے، ہسپتال کا عملہ طبی آلات کو برقرار رکھنے کے لیے خام پرزوں کی کمیابی کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ الاقصیٰ ہسپتال میں انستھیسیا یعنی بےہوشی کی دوا بھی کم ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ سرجری اور دوسرے علاج اکثر بے ہوش کیے بغیر کئے بغیر کیے جاتے ہیں۔
تانیا حج حسن کہتی ہیں کہ غزہ کے صحت کی دیکھ بھال کے بحران کو ختم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے۔"انہیں جنگ ختم کرنی چاہئے ۔"
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم