عشروں سے افغانستان کے عبدالرشید دوستم ملک کے کشیدہ دور افتادہ شمالی علاقے سے تعلق رکھنے والے طاقتور جگادری ہیں۔
وہ فوج کے ایک جنرل اور اپنے قبیلے کے سربراہ ہیں، جنھوں نے اُس وقت جب طالبان طاقت میں تھے، امریکی سی آئی اے کا ساتھ دیا تھا اور سنہ 2001 میں اس شدت پسند گروپ کو اقتدار سے علیحدہ کرنے میں امریکہ کی مدد کی تھی۔
تاہم، اب بحیثیت نائب صدر، دوستم ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ گذشتہ سال موسم خزاں میں اُنھوں نے چیچنیا کا دورہ کیا، جہاں، اطلاعات کے مطابق، اُنھوں نے افغانستان میں داعش کے شدت پسند گروہ کے خلاف لڑائی کے لیے ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ وہ ماسکو رُکے، جہاں اُنھوں نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کا اعادہ کیا۔
اور اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ وہ امریکہ کا بھی دورہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ طالبان، داعش، منشیات کی اسمگلنگ اور سیاسی غیر یقینی کی صورت حال کے بارے میں افغان حکومت کی جاری جدوجہد پر بات کر سکیں۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی افغان سروس کو بتایا کہ ’’میں پینٹاگان کے احباب، کانگریس کے ارکان اور امریکی جنرلوں سے مانوس ہوں جو عراق اور افغانستان میں قیام کر چکے ہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’میں صورت حال کے بارے میں اُن سے گفتگو کرنے کا خواہان ہوں۔ اُنھیں اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔ وگرنہ، معاملہ کنٹرول سے باہر ہو سکتا ہے‘‘۔
لیکن، بظاہر اوباما انتظامیہ کو دوستم سے کوئی لینا دینا نہیں۔ منگل کو ’دی نیو یارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکہ نے خاموشی سے یہ بات پہنچا دی ہے کہ اگر دوستم امریکہ کے دورے کی کوشش کرتے ہیں، تو اُن کی ویزا درخواست مسترد کی جائے، کیونکہ اُن کی قیادت کے دور میں طالبان کے خلاف مبینہ مظاہم سرزد ہوئے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کی اس رپورٹ کے مطابق، بتایا جاتا ہے کہ افغان حکومت نے دوستم کے دورہٴ امریکہ کو منسوخ کیا، جب امریکی محکمہٴ خارجہ اس سوچ کا اظہار کیا۔
دوستم اِس ماہ اقوام متحدہ کی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں شرکت کے خواہاں تھے، جس نے منشیات کے عالمی مسائل پر گفتگو کرنا تھی۔
برعکس اس کے، افغان وزیر برائے انسداد منشیات، سلامت عظیمی، جنھیں دوستم نے نامزد کیا تھا، خطاب کیا۔
امریکہ کے دورے کی منسوخی کے بارے میں سوال پر، دوستم نے بتایا کہ أفغانستان میں جاری کشیدگی کے باعث اُنھوں نے ملک میں ہی رہنا پسند کیا۔