گھروں میں بند لوگ صرف خبروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ضروریاتِ زندگی کو محدود تر کر رہے ہیں۔ غیر ضروری خریداری سے اجتناب اور انتہائی ضروری اشیا کے استعمال نے طلب اور رسد کےتوازن کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں وہ کمپنیاں جن کے کاروبار کا انحصار صارفین کی طلب پر ہے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
تاہم، یونیورسٹی آف شکاگو میں مارکیٹنگ اینڈ انٹرنیشنل بزنس کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری کہتے ہیں کہ امریکی معیشت میں اگریکلچر اور مینو فیکچرنگ کا امتزاج بے حد منفرد ہے جو معیشت کا پہیہ رکنے نہیں دیتا۔
بقول ان کے، ''امریکہ اور دنیا بھر میں کاروبار کے تین کلاز، مرچنڈائز اور مینو فیکچرنگ، سروسز اور کماڈیٹیز پر کسی بھی معاشی بحران کا الگ الگ اثر ہوتا ہے۔ پہلے کلاز میں عام ضرورت کی اشیا یعنی کھانے پینے کی اشیا، کپڑے۔ دوائیں اور ڈیری کی اشیا آتی ہیں جن کی مانگ کبھی ختم نہیں ہوتی اور یہ چلتی رہتی ہیں خواہ معیشت کی صورت کچھ بھی ہو۔"
پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری نے بتایا کہ کرونا وائرس کا سب سے زیادہ اثر سروسز انڈسٹریز پر ہوا ہے اور زیادہ تر لوگ انہی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں اور زیادہ تر گھنٹوں کے حساب سے اجرت پاتے ہیں یا کنٹریکٹ پر کام کرتے ہیں۔ ان میں ہوٹل، بنک، ائر لائینز اور مورٹگیج کمپنیاں شامل ہیں۔ ان میں شاپنگ مالز اور دیگر دوکانیں بھی آتی ہیں اور ان کے بند ہونے سے معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں چھوٹے کاروبار زیادہ متاثر ہوتے ہیں، جبکہ بڑی کمپنیوں کا نقصان وقتی ہوتا ہے۔
امریکہ میں ان لا فرموں سے بہت لوگ رابطہ کر رہے ہیں جو ریسٹرکچرنگ اور دیوالیہ پن کے اعلان میں مدد دیتی ہیں۔ اس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں یونیورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر بخاری کہتے ہیں کہ اگر بڑی کمپنیاں یہ سمجھ کر دیوالیہ ہونے کا اعلان کریں کہ ان کے قرضے معاف ہو جائیں گے تو ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ بزنس کارپوریشنز کے قرضے معاف نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بزنس یا تو ٹرسٹی کے پاس چلا جاتا ہے یا پھر بالکل ختم ہو جاتا ہے اور قرضے کمپنی کے اثاثوں کے ذریعے چکائے جاتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکی حکومت نے دو کھرب ڈالر کے جس بحالی پیکیج کا اعلان کیا ہے اس سے چھوٹی کمپنیوں کو ضرور مدد ملے گی۔
پیکیج کا اعلان پاکستان کی حکومت نے بھی کیا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی معیشت ایک چھوٹی معیشت ہے مگر بڑے ملکوں کے رویے سے اسے فرق ضرو پڑتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بنک اینڈ فنانس کے چئیرمین ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مغرب کے بہت سے ملکوں نے پاکستان سے امپورٹ اور ایکسپورٹ کے بہت سے آرڈر منسوخ کر دئیے جس کی وجہ سے عام کاروباروں کو دھچکہ پہنچا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا انڈسٹریل سیکٹر کرونا وائرس کا مسئلہ پیدا ہونے سے بہت پہلے سے مشکلات کا شکار رہا ہے۔ اب لاک ڈاؤن سے مزید مشکلات پیش آئیں گی۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے جس پیکیج کا اعلان کیا ہے اس سے ضرور مدد ملے گی۔ ایک تو شرحِ سود میں کمی کی گئی ہے دوسرے درآمد کنندگان کو ٹیکس ریفنڈ اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو نہ صرف قرضوں میں رعایت دی جائے گی بلکہ تعمیرات کے شعبے کو مراعات بھی دی جائیں گی۔
ڈاکٹر شاہد صدیقی کہتے ہیں کہ کسی ادارے کے دیوالیہ ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں بنکوں کے قرضوں کی عدم وصولی کی صورت میں ریشیڈیولنگ، ریسٹرکچرنگ اور قرضوں میں سود کی معافی کے قوانین موجود ہیں اور صنعتی شعبہ اس سے فائدہ حاصل کرتا رہا ہے۔
کرونا وائرس کے بحران سے دنیا بھر کی معیشتیں مشکلات کا شکار ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری کہتے ہیں کہ امریکہ کی معیشت میں مینوفیکچرنگ کا عنصر بڑا مضبوط ہے اور امریکی معیشت ایک میچیور اکانومی ہے۔ اس کی بحالی کیلئے کسی نئے سسٹم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ دنیا کی معیشت 127 کھرب ڈالر کی ہے۔ کرونا وائرس کی عالمی وبا سے 2.5 کھرب ڈالر کا نقصان متوقع ہے مگر چین اور جنوبی کوریا کے ماڈل کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ دو سہ ماہیوں کے بعد عالمی معیشت بحال ہونا شروع جائے گی۔