امریکہ میں نیویارک اور فلوریڈا کی ساحلی تفریحی گاہیں سیاحوں میں بہت مقبول ہیں۔جیسے ہی موسم گرم ہونا شروع ہوتا ہے، لوگ ساحلوں کا رخ کرتے ہیں۔ وہ سمندر کی گیلی ریت پر لیٹ کر دھوپ کی حرارت کا لطف اٹھاتے ہیں اور پانی میں اتر کر اس کی ٹھنڈک سے خود کو تازہ دم کرتے ہیں۔
ان دنوں نیویارک کی ساحلی تفریح گاہوں میں جانے والوں کو ساحل کے ساتھ ساتھ فضا میں ڈرون بھی اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔مگر ان کی اڑان کا مقصد پانی میں اترنے والوں پر نظر رکھنا نہیں ہے بلکہ شارکوں کی نگرانی کرنا ہے۔ حالیہ برسوں میں پانی میں اترنے والوں پر شارکوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اس سال سیزن کے آغاز پر صرف ایک ہفتے کے دوران نیویارک میں ایسے پانچ واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔
نیویارک کے لانگ آئی لینڈ بیچ پارک کے ڈائریکٹر جارج گورمین کہتے ہیں کہ ہم پہلے سے زیادہ چوکس ہیں ۔ ہمارے پاس ڈرونز ہیں جو آسمان سے نگرانی کرتے ہیں اور تیز رفتار کشتیاں ہیں جن پر لائف گاڈز گشت کرتے ہیں۔
پچھلے سال کے دوران نیویارک کی ساحلی تفریح گاہوں پر شارک حملوں کے آٹھ واقعات ہوئے تھے، جب کہ اس سال سیزن کے آغاز پر پانچ واقعات کے بعد آئندہ دنوں میں مزید حملوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال فلوریڈا کے ساحلی تفریحی علاقوں میں شارکوں نے 16 حملے کیے تھے ۔
2022 سے پہلے ساحلی علاقوں میں شارکوں کے حملوں کے واقعات نمایاں طور پر کم تھے۔ دنیا بھر میں شارک حملوں کا ریکارڈ رکھنے والے گروپ ’ انٹرنیشنل شارک اٹیک فائل‘ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ عشرے کے دوران نیویارک میں شارک کے صرف چار حملے رپورٹ ہوئے تھے۔
کچھ ماہرین انسانوں پر شارک حملوں میں اضافے کی وجہ گلوبل وارمنگ کو قرار دیتے ہیں جس سے سمندر کا پانی گرم ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موسم گرم ہونے سے اب ماضی کی نسبت زیادہ لوگ ساحلوں کا رخ کر رہے ہیں، جس سے شارک حملوں کے امکا نات بھی بڑھ گئے ہیں۔
امریکہ کی لگ بھگ 40 فی صد آبادی ان علاقوں میں رہتی ہے جو ساحلوں کے قریب ہیں۔ وہ تفریح کے لیے ساحلی علاقوں کو ترجیح دیتے ہیں۔سینٹ لوئی پوسٹ ڈسپیچ کی ایک رپورٹ کے مطابق 31 فی صد امریکی گرمیوں میں تفریح کے لیے ساحلی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
نیویارک کے لائف گارڈ سپروائزر کیری اپسٹین کہتے ہیں کہ نیویارک میں لوگ صدیوں سے سمندر کے پانیوں میں اتر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سمندر شارکوں کا گھر ہے اور ہم ان کے گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔
نیویارک کی ساحلی تفریح گاہوں پر شارک کے حملوں میں اضافے کے بعد حکومت نے نگرانی کرنے والے ڈورنز کی تعداد 8 سے بڑھا کر 18 کر دی ہے۔ اپسٹین ڈرونز کی پروازوں کا بندوبست کرتے ہیں۔
جب ڈرون فضا میں بلند ہوتا ہے تو اس کا کیمرہ کنٹرول کی سکرین پر نیچے کا منظر دکھانے لگاتا ہے۔ نگران ڈرونز صبح دوپہر اور شام کے دوران ساحل کے قریب پانیوں پر پرواز کرتے ہیں اور ان شارکوں کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں جو کشتیوں پر گشت کرنے والے لائف گارڈز کی نظروں سے پوشیدہ ہوتی ہیں۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ شارک کے حملوں میں اضافے کی ایک وجہ ساحلوں کے قریب ان چھوٹی مچھلیوں کی تعداد میں اضافہ ہے جو شارکوں کا پسندیدہ شکار ہے۔
شارکیں جب مچھلیوں کے تعاقب میں ساحل کے قریب آتی ہیں تو ان کا سامنا وہاں پانی میں تیرتے ہوئے لوگوں سے ہوتا ہے۔بعض اوقات شارک گھبراہٹ میں یہ سمجھ کر کہ اس پر حملہ کیا جانے والا ہے، اپنے دفاع میں انسان پر حملہ کر دیتی ہے۔
شارکوں کے بڑھتے ہوئے حملوں نے لوگوں کو بھی محتاط کر دیا ہے اور اب اکثر لوگ گہرے پانی میں جانے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ مائیک برچوف بھی انہیں افراد میں شامل ہیں۔ وہ ایک بار شارک کے حملے کا نشانہ بن چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب میں صرف کمر تک گہرے پانی میں جاتا ہوں۔ اس سے آگے جانے کا خیال بھی دل میں نہیں لاتا۔
اب تک ریکارڈ کیے جانے والے شارکوں کے حملے ایسے نہیں تھے جن سے زندگی کو خطرہ لاحق ہو۔ ان واقعات میں شارکوں نے لوگوں کی ٹانگوں اور ہاتھوں پر کاٹا تھا۔ تاہم ایسے واقعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، خاص طور ایسے میں جب کہ ساحل کے قریب آنے والی شارکوں کی لمبائی کم و بیش 10 فٹ ہو۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نیویارک کے ساحلی علاقوں میں ایک درجن اقسام کی شارکیں دیکھی گئی ہیں جن میں بڑے سائز کی سفید شارک بھی شامل ہے جو عموماً سمندرکی تہہ میں رہتی ہے۔اس کی لمبائی 21 فٹ اور وزن 4500 پاؤنڈ تک ہوتا ہے۔
سفید شارک انسانوں پر حملہ کرنے سے بھی نہیں چوکتی۔ تاہم اس کی نسل مسلسل گھٹ رہی ہے اور آبی ماہرین کے مطابق اب دنیا میں محض 3500 سفید شارکیں ہی باقی رہ گئیں ہیں۔
نیویارک کے لانگ آئی لینڈ کے ساحلی علاقے میں سینڈ شارک بھی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کی لمبائی 15 فٹ کے لگ بھگ ہوتی ہے، اس کا بڑا جبڑا اور نوکیلے دانت دیکھنے والے پر دہشت طاری کر دیتے ہیں۔ تاہم سینڈ شارک انسان پر حملہ نہیں کرتی۔
امریکی ادارے ساحلی تفریح کو محفوظ بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں تاکہ کروڑوں امریکی گرمیوں کے موسم میں سمندر کے ٹھنڈے پانی میں اترنے اور لہروں کے ساتھ کھیلنے کی اپنی صدیوں پرانی روایت کا لطف اٹھا سکیں۔
( اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوی ایٹڈپریس سے لی گئیں ہیں)