رسائی کے لنکس

دبئی کی جگمگاتی دنیا میں آرزووٴں کے زخم


دبئی کی جگمگاتی دنیا میں آرزووٴں کے زخم
دبئی کی جگمگاتی دنیا میں آرزووٴں کے زخم

دبئی جانا، رہنا اور پیسہ کما کر اپنے اپنے وطن بھیجنا آج سے نہیں 70 کے عشرے سے جاگتی آنکھوں کا ایسا دلکش خواب بنا ہوا ہے کہ کوئی اس سے باہر آنا ہی نہیں چاہتا

دبئی ۔۔ ان گنت لوگوں کے لئے انتہائی پرکشش۔۔ ڈھیروں لوگوں کے لئےسپنوں کی سرزمین ۔۔ اور لاتعداد افراد کےخوابوں کی تعبیرہے۔۔۔ مگر اس کےساتھ ساتھ یہ جنوبی ایشیاء کے بےروزگاروں، غریبوں اور بےسہاروں کی آرزوں کا محل بھی ہے۔وہاں جانا، رہنا اور پیسہ کما کر اپنے اپنے وطن بھیجنا آج سے نہیں 70 کےعشرے سےجاگتی آنکھوں کا ایسا دلکش خواب بنا ہوا ہے کہ کوئی اس سے باہر آنا ہی نہیں چاہتا۔

بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال۔۔ اور کتنے ہی دوسرے ترقی پذیرممالک کے شہری وہاں جانے کے خواہشمند ہیں۔۔۔ لیکن وہ دبئی کا صرف ایک رخ دیکھتے ہیں۔۔ دوسرا نہیں۔ یہ دوسرا رخ اکثر و بیشتر یہاں آکر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ رنگ برنگی روشنیوں اور چمک دمک کے پیچھے ہزاروں کہانیاں ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ یہاں آنے والا ہر شخص ایک کہانی کے ساتھ یہاں آتا ہے اور یہاں آکر بھی ایک ایسی کہانی کے گورکھ دھندے میں الجھ جاتا ہے جس کے بارے میں اکثر اوقات وہ کو نہیں بتاتا اور چپکے چپکے کڑوے گھونٹ گلے سے نیچے اتارتا رہتا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی جاری کردہ ایک خبر کے مطابق ایک بھارتی مزدور، اتھی رمن کنان نے دبئی میں دنیا کی سب سے اونچی 163منزلہ عمارت برج خلیفہ سے کود کر خود کشی کرلی۔ یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے پیش آیا۔ اس روز رمن معمول کے مطابق عمارت کی 147ویں منزل پر واقع اپنے آفس پہنچا۔ اس نے ایک گھنٹے تک روز کی طرح کام کیا مگر پھر اچانک جانے کیا ہوا کہ 30 سالہ رمن جو ایک بیٹے کا باپ بھی تھا آفس کی کھڑی کا شیشہ توڑتا ہوا نیچے آگرا۔ ایک سو آٹھویں منزل پر لگے جال تک پہنچتے پہنچتے اس کے جسم اور روح کاناطہ ٹوٹ چکاتھا۔

اس کے ساتھ کام کرنے والے، سابق روم میٹ اور ہم وطن ایک دوست کا کہنا ہے کہ وہ رمن کو سات برسوں سے جانتا تھا۔ خود کشی کے دن بھی وہ بالکل نارمل تھا۔ اسے بھی معلوم نہیں ہے کہ خودکشی کی وجہ کیاتھی۔ بس وہ صرف اس قدر جانتا تھا کہ رمن گھر جانا چاہتا تھا۔ اسے وطن اور اپنے گھروالوں کی یاد ستا رہی تھی جبکہ دفتر سے اسے فوری چھٹی ملنا ممکن نہیں تھا لہذا وہ مایوسی کے عالم میں اپنی جان گنوا بیٹھا۔

وہ دس سال پہلے دبئی آیا تھا۔ یہاں آکر اسے معلوم ہوا کہ اس کے پیچھےاس کےآبائی شہر میں خاندانی وراثت کے چکر میں آپس میں جھگڑے ہونے لگے ہیں۔ ان جھگڑوں میں اس کے بیٹے کی جان بھی چلی گئی۔ بیٹے کی موت نے اسے ادھ موا کردیاتھا۔ وہ بوڑھے ماں باپ، بیوی اور ایک چار سالہ بیٹے کا واحد کفیل تھا۔ اس کی تنخواہ 25سو درہم ماہانہ تھی۔

سن 2010ء میں تکمیل کو پہنچنے والی دنیا کی سب سے بلند عمارت سے ہونے والی یہ پہلی مگر رواں سال کے ابتدائی چار ماہ میں 26ویں خود کشی تھی۔ ممکن ہے کچھ اور مزدورں نے بھی خودکشیاں کی ہوں لیکن اب تک سامنے آنے والے واقعات کی تعداد 26 ہی ہے۔ گزشتہ سال یعنی 2010ء میں 113 بھارتی شہریوں نے خود کشی کی تھی۔ اس تناسب سے یہ شرح ہرتیسرے روز ایک خودکشی بنتی ہے۔

ان اموات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ متحدہ عرب امارات میں رہنے والے غیرملکی کارکنوں کے حالات اچھے نہیں ہیں ۔ امارات میں بے شمار مزدور اور عام ورکرز رہائش پذیر ہیں جو دبئی کو رونق بخشنے والی بلند و بالا عمارتوں، دفاتر اور شاپنگ مالز کی تعمیر میں اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں مگر خوشحالی ۔۔۔ جس کے خواب آنکھوں میں بسائے وہ وہاں جاتے ہیں ۔۔ اکثر وہ ان سے دور ہی رہتے ہیں ۔

امارات میں بیشتر مزدور ایسے ہیں جن کو ایک ہزار درہم (270ڈالر) ماہانہ سے بھی کم تنخواہ ملتی ہے۔ اکثر افراد قرض لے کر دبئی جاتے ہیں اورپھر وہاں اپنے قیام کاسارا عرصہ قرض کی ادائیگی کی کوششوں میں ہی گذرجاتا ہے اور جب یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں تو ان کا ایک نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کا سامنا رمن کو کرنا پڑا ۔ یعنی خودکشی!!!

دبئی میں بعض اوقات غیر ملکی کارکنوں کو کئی طرح کے مسائل پیش آتے ہیں ، مثلاً تنخواہیں نہ ملنا یا کئی کئی مہینے بعد ملنا، اوور ٹائم کے بغیر زیادہ کام کرایا جانا، بھرتی کے وقت زیادہ فیسیں، تنہائی، گھرکی یادیں، پاسپورٹوں پر ٹھیکداروں کا قبضہ اور آزادانہ آمدروفت پر پابندی۔ ان مسائل کا سامنا کم وبیش وہاں ہر غیر ملکی مزور کوکرنا پڑتاہے۔ اور جن کا وہ کسی سے ذکر بھی نہیں کرسکتا۔ یہ مسائل اسے اندر سے کھوکھلا، کم ہمت، مایوس اور بزدل بنادیتے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق عرب امارات میں ساڑھے سترہ لاکھ سے زیادہ بھارتی رہتے ہیں۔ یہ امارت میں کسی بھی ملک کے کارکنوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ بھارتی حکومت اپنے اعدادوشمار کے مطابق ہر امارات میں ہر پانچ میں سے تین مزور بھارتی ہیں۔

رمن کی موت کے بعد دبئی میں واقع بھارتی سفارت خانے میں خاصی ہلچل ہوئی۔ سفارت خانے نے فوری طور پر ایسے اقدامات شروع کردیے ہیں جن سے مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے میں مدد مل سکتی ہو۔

سفارت خانے نے اپنے ہم وطنوں کی راہنمائی اور مدد کے ہاٹ لائن سروس قائم کردی ہے۔ علاوہ ازیں ہیلپ سینٹر اور ورکرز یسکیو سینٹر بھی قائم کردیا گیا ہے۔ مزدوں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ، تنخواہوں کا اسکیل طے کرنا، ان کے لئے رہائشی عمارات کا بندوبست اور دیگر کئی اقدامات شامل ہیں۔

رمن کی خودکشی نے مقامی اداروں کی توجہ غیر ملکی کارکنوں کی جانب مبذول کرادی ہے۔ عرب امارات نے مزوروں کے حالات بہتر بنانے کی کوششیں شروع کردی ہیں جن میں دوپہر کا وقفہ، سخت گرمی میں کھلے آسمان تلے کام پر پابندی اور تنخواہوں کی بلارکاوٹ ترسیل اور مالی تحفظات شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG