یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح، یہاں بھی تارکین وطن ، خاص طور سے مسلمانوں کے خلاف مہم چلی ہوئی ہے۔ ڈچ فریڈم پارٹی کے لیڈر گریٹ ویلڈرز کہتے ہیں کہ ’’ہماری تجویز ہےکہ مسلمان ملکوں سے لوگوں کا داخلہ مکمل طور سے بند کر دیا جائے کیونکہ ہالینڈ میں جو اسلام موجود ہے وہ بہت کافی ہے۔ ہم یورپ اور نیدرلینڈز کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اور اسی لیے ہم نے یہ تجویز دی ہے‘‘۔
پورے مغربی یورپ میں سیاسی پارٹیوں نے اور ان میں صرف انتہائی دائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں ہی شامل نہیں ہیں، اسی انداز فکر کو اپنا لیا ہے۔
فرانس اور بیلجیم میں ایسا قانون بنایا جا رہا ہے جس کے تحت مسلمان عورتوں کو گھر کے باہر برقع پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سوئٹزر لینڈ میں مسجدوں میں نئے مینار تعمیر کرنا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
صادق ہارڈویچی ایک ریسرچ گروپ فورم انسٹیویٹ فار ملٹی کلچرل افیئرز کے چیئرمین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان دشمن جذبات کی جڑیں حالیہ تاریخ میں پیوست ہیں ’’گلوبلائیزیشن کے اس دور میں تیزی سے آنے و الی تبدیلیوں نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آپ اس اقتصادی بحران کے اثرات جو امریکہ میں مکانوں کے قرضوں سے شروع ہوا بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔ آپ یہاں روزگار سے محروم ہو گئے ہیں۔ ہر کوئی اپنی بقا کے لیے کوئی نہ کوئی سہارا تلاش کر رہا ہے ۔ یہ وہ غیر یقینی حالات اور وہ خوف ہے جسے مسٹر گریٹ ویلڈرز نے یورپ میں اسلام کے غلبے کا نام دیا ہے‘‘۔
2008ء میں ویلڈرز نے ایک فلم ریلیز کی جس میں مغرب کو اسلام کے غلبے کے خطرے سے آگاہ کیا گیا ہے۔ اس فلم کا نام ہے فتنہ اوراس میں قرآن سےاقتباسات لے کر انہیں دہشت گردی کے مناظر کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ اس فلم پر کئی ملکوں میں پابندی لگا دی گئی ہے۔ نیدرلینڈز میں ویلڈرزکے خلاف نفرت پھیلانے اورامتیازی سلوک کا پرچار کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں‘‘۔
ذولی کے قصبے میں جہاں ویلڈرز حال ہی میں اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں گئے تھے حکام نے بے گھر افراد کے لیے، جن میں سے بیشتر مسلمان ہیں، فٹ بال میچ کا انتظام کیا ہے۔ وائس آف امریکہ کے نمائندے نے ایک بےگھر فرد سے مسلمانوں کے خلاف جذبات کی لہر کے بار ے میں دریافت کیا ’’یہ کوئی مسئلہ نہیں ہےکیوں کہ یہ آزاد ملک ہے اور آپ یہاں اپنی پوری زندگی گذار سکتے ہیں۔ جہاں تک ویلڈرز کا تعلق ہے تو وہ ایک کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس قسم کی چیز یہاں نیدرلینڈز میں چل نہیں سکتی‘‘۔
ویلڈرز کی مقبولیت باقی رہی تو بھی ان کے بارے میں لوگوں کے جذبات ملے جلے رہیں گے۔ مثلاً ایک شہری نے اس طرح اظہارِ خیال کیا ’’وہ لوگوں کے اندیشوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ میرے خیال میں وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ خاصا احمقانہ ہے۔ ہالینڈ میں بہت لوگ آ چکے ہیں۔ میری رائے بھی یہی ہے کہ جو لوگ آ چکے ہیں، وہ کافی ہیں‘‘۔
اگرچہ بہت سے لوگ ویلڈرز کے خیالات کو انتہا پسندی کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں، لیکن ان کی پارٹی کو بہت سے ووٹروں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور یوں مسلمانوں کے خلاف احساسات بیلٹ باکس تک پہنچ رہے ہیں۔